ہفتہ‘ 24 صفر المظفر1446ھ ‘ 31 اگست 2024ء

Aug 31, 2024

گورنر سندھ ٹیسوری نے سیاست پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر دیا
سیاست کو تو عبادت کہا جاتا ہے۔ کیا ٹیسوری صاحب عبادت پر پابندی لگانے پر تل گئے ہیں یا پھر وہ سیاست کو عبادت نہیں سمجھتے اور ایسی قباحت سمجھتے ہیں کہ جس پر کم از کم چھ ماہ پابندی لگا دی جائے۔ گورنرہاؤس میں یوتھ پارلیمنٹ کے اراکین کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر اراکین سے کہا کہ اس وقت ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ، وہ یہ مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ سب سیاستدانوں کو مل کر کچھ ماہ کے لیے سیاست پر پابندی لگادینی چاہیے اورمعاشی بحران سے نمٹنے کے لیے مل کرکام کرنا چاہیے۔گویااب سیاست بدروح ہے جو چھ مہینے بعد نیک پروین بن جائے گی۔گورنر ٹیسوری بڑے کمال کی شخصیت ہیں۔گورنر ہاؤس میں رونقیں لگائے رکھتے ہیں جیسے یہ اجلاس ہوا جس میں انھوں نے سیاست پر پابندی کی تجویز کے دانشمندانہ موتی بکھیرے۔بڑی عید پر گورنر ہاؤس میں سو اونٹوں، دس بیلوں اور سو بکروں کی قربانی بھی کی گئی تھی۔ ان کی طرف سے دو اونٹ اور ہاری کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے اونٹ کی ایک ٹانگ اس کے مخالف نے کاٹ دی تھی۔جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ٹیسوری کی طرف سے جدتوں کے تقاضوں کے مطابق کیا جاتا ہے۔ یہ سارے کے سارے اونٹ اور بکرے انھوں نے ڈاؤن لوڈ کیے تھے۔پیپلز پارٹی ان کو تبدیل کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے پارٹی کے لیڈروں کی طرف سے کہا گیا کہ اگر ہمارے گورنر کو تبدیل کیا گیا تو حکومت چھوڑنے پر غور کر سکتے ہیں۔لیکن حکومت کی طرف سے پسپائی اختیار کی گئی اور ایم کیو ایم کے لیڈر غور و خوض کی زحمت سے بچ گئے۔یہ وہی پارٹی ہے جس کے کبھی الطاف بھائی مدار المہام ہوا کرتے تھے۔پورا کراچی ان کی مٹھی میں بند ہوا کرتا تھا۔ چڑیا پر مارنے کے لیے ان کی اجازت کی دست بستہ خواستگار ہوا کرتی تھی۔ ان کی بھی نرالی شخصیت تھی۔ کراچی کے لوگ ان کو بہت یاد کرتے ہیں۔ بوریوں والے انصاف کی فریاد کرتے ہیں۔گورنر کامران ٹیسوری یہ مطالبہ بھی کھڑکا سکتے ہیں کہ گورنر اگر تاحیات نہیں تو اس کی کم از کم مدت ہے 10 سال تو کر دی جائے۔
٭٭٭٭
غلام احمد بلور نے سیاست چھوڑ دی 
بلور صاحب نے سیاست چھوڑی ہے شرافت نہیں۔ وہ جینٹل اور ڈیسنٹ سیاستدان کی شہرت رکھتے ہیں ورنہ تو ایم کیو ایم کے لیڈروں کی طرح ڈائیلاگ دہرا دیتے۔ ہم کیا شریف ہوئے دنیا بدمعاش ہو گئی۔ غلام احمد بلور اس پر دلبرداشتہ ہوئے کہ ان کو پے در پے انتخابات میں شکست دلائی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کچھ قوتوں کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ الیکشن میں شکست تو مخالف امیدوار دیتا ہے۔ وہ جن قوتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ان کا نام نہیں بتایا۔ ایسے الزامات پر شکست خوردہ شخص دل شکستہ ہو کرکچھ قوتوں پر دھر دیتا ہے۔ قوتوں کے بارے پوچھا جائے تو سب کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ان قوتوں کو سب جانتے ہیں۔ اے این پی کے کئی لیڈر جیتے ہیں ہارے بھی ہیں۔ تو کیا ہارنے والے سب قوتوں کے معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔ گویا جو معیار پر پورا اترے وہ جیت گئے۔ آپ بھی معیار پر پورا اتر کر فتح کے شادیانے بجا دیں۔ ایسا کرنا شاید ان کا ضمیر گوارا نہیں کرتا تو معیار پر پورا اترنے والے اپنے ساتھیوں کے ضمیر کے بارے میں وہ کیا فرماتے ہیں۔بلور صاحب تو عمران خان کو شکست دینے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ گو عام انتخابات میں ہارے اور ضمنی الیکشن میں پشاورہی سے اسی حلقے سے جیت گئے تھے۔ عام الیکشن میں وہ کچھ قوتوں کے معیار پر پورا نہیں اترے تھے۔ اگلے چند ہفتے میں محنت اور ریاضت کر کے معیار پر پورا اترنے کا امتحان پاس کر کے گولڈ میڈل کے حقدار ٹھہرے۔غلام احمد بلور کا ایک بڑا کریڈٹ پاکستان ریلوے میں بطور وزیر ریلوے حادثات کو کم ترین سطح پر لاناہے۔ ٹرینیں جتنی زیادہ چلیں گی اتنے زیادہ حادثات کے خدشات ہوں گے۔ان کے تابناک دور میں حادثے کم اور پٹڑیاں گھسنے سے محفوظ رہیں۔ گڈز ٹرانسپورٹ: ٹرکوں ،ٹرالوں کا بزنس خوب چمکا۔ اس شعبہ کے کرتا دھرتا بلور صاحب کو مرشد مانتے ہیں۔ انھوں نے سیاست چھوڑی ساتھ ہی پشاور چھوڑ کراسلام آباد جا کربسنے کا بھی فیصلہ کرلیا۔ سیاست چھوڑ کر سیاست کے گڑھ میں چلے گئے۔
٭٭٭٭
مارشل لاء اور جمہوریت اکٹھے نہیں چل سکتے، فواد چودھری
محمد خان جونیجو غیر جماعتی انتخابات میں بلا مقابلہ منتخب ہونے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی طرف سے وزیراعظم بنائے گئے۔ وہ خود کو سچ مچ کا اور مضبوط وزیراعظم سمجھنے لگے۔یار لوگوں نے ہلہ شیری دی تو ایک دن صبح اٹھے اور کچی آنکھوں سے بیان داغ دیا جمہوریت اور مارشل لاء اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ان دنوں حقیقت میں مارشل لاء لگا ہوا تھا۔ صدر جنرل ضیاء الحق نے اس کے بعد مارشل لاء اٹھا لیا مگر یہ اوپر اوپر سے اٹھایا گیا تھا۔ وہ بدستور طاقتور صدر تھے۔ مارشل لاء اٹھاتے ہوئے انھوں نے شاید دل میں مونچھوں کو تاؤ دیتے کہا ہوگا ،دونوں میں سے ایک چلنا ہے تو پھر پھر مارشل لاء ہی چلے گا۔ انھوں نے جمہوریت کا بستر گول کر وزیراعظم کو سندھڑی ان کے وطن مالوف بھجوا دیا۔ محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ محمد نواز شریف بدستور وزیراعلیٰ  رہے۔ فواد چودھری کو آج کون سا اور کہاں کا مارشل لاء نظر آیا ہے جو جمہوریت کے ساتھ نہیں چل سکتا ہے۔ ویسے چودھری صاحب سے یہ بھی پوچھ لیا جائے ’کون لوک او تسیں؟‘۔ وہ تحریک انصاف کے بڑے لیڈر تھے۔ جہانگیر ترین کی آئی پی پی کے پہلے اجلاس میں شرمیلی دلہن کی طرح چہرہ چھپاتے شریک ہوئے۔ پھر جیل جاترا کرنی پڑی۔جیل میں عمران خان سے ملے۔ بیانات میں آج کل تحریک انصاف کی ترجمانی کرتے ہیں چونکہ پارٹی کا باقاعدہ حصہ نہیں لہٰذا پی ٹی آئی کے لیڈروں پر کھل کر طعن و تشنیع بلکہ تبرا کرتے ہیں۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی ان کے پہلے سے قید ہیں۔ یہ جیل سے باہر کیسے آگئے؟ فواد حسین بیک وقت کئی کے ساتھ چل سکتے ہیں تو جمہوریت اور ان کا خیالی مارشل لاء ایک ساتھ کیوں نہیں چل سکتے؟
٭٭٭٭
قاسم علی شاہ کو کے پی کے میں سماجی بہبود کا محکمہ تفویض
جی ہاں! اسی طرح اخبار میں سرخی جمائی گئی ہے۔ قاسم علی شاہ نے عمران خان کا لاہور زمان پارک میں ان دنوں انٹرویو کیا تھا جب حکومت کے وہ ریڈار پر تھے۔ اسی انٹرویو میں قاسم علی شاہ نے خان صاحب کو کچھ سونگھایا بھی تھا۔ جس پر بعد میں بڑی لے دے ہوئی تھی۔ اس انٹرویو کا بڑا چرچا ہوا تھا۔ خبر پڑھ کر یہی ذہن میں آیاکہ خان صاحب کی سفارش یا خان صاحب سے اس دن کی قرابت کے باعث ہی گنڈا پور نے ان کو وزیر بنا دیا ہے۔ معاً یہ خیال کوندا کہ انٹرویو کے چند روز بعد قاسم علی شاہ صاحب نے خان صاحب کی ایک گفتگو میں اینٹ سے اینٹ سے بجا دی اور شہباز شریف کی ستائش کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو مثالی قرار دیا تھا۔ جسکے بعد تحریک انصاف کے مجاہدین کی توپوں کا رخ ان کی طرف ہو گیا تھا۔ اس منظر نامے کے بند آنکھوں کے سامنے گھومنے کے بعد آنکھیں کھول کر تفصیل سے خبر پڑھی تو پتا چلا کہ گنڈا پور نے کابینہ میں ردوبدل کیا ہے۔ پانچ وزرا کے قلم دان تبدیل کیے ہیں۔ ان میں وزیر صحت قاسم علی شاہ بھی ہیں جن کو سماجی بہبود کا محکمہ سونپا گیا ہے۔ وہ والے قاسم علی شاہ نہیں جو خان صاحب کو رومال سونگھا کر اکیلے چلے گئے تھے۔کہا جا رہا ہے کہ کابینہ میں مزید بھی ردوبدل ہوگا۔ یہ وزیر اعلیٰ صاحب شاید ویلے ہیں۔ فراغت میں سوچا چلو کابینہ میں ردوبدل کی مصروفیت ہی سے دل بہلانے ہیں۔ بیکارمباش کچھ  توکیا کر۔۔۔ ادھر شیرافضل مروت نے کہا ہے کہ 8 ستمبر کو3سے چار لاکھ لوگ ترنول جلسے میں شرکت کریں گے۔ یہ بھی ’نہ ہونے والا‘ جلسہ لگتا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر جلسہ ہوا تو۔ اس سے قبل بھی چار جلسے ایسے ہی اعلانات کے بعد مؤخر یا منسوخ کردیے گئے تھے۔ ہر جلسے کے اعلان کے بعد کہا گیا۔ جلسہ ہر صورت ہوگا۔ اب ہر صورت کا شاید مطلب یہ ہے کہ موسم خوشگوار ہواور شرکا کا بندوبست کرنا حکومت کے ذمے۔

مزیدخبریں