پنجاب میں پارلیمانی سیکرٹریز کا تقرر

 وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے 25 پارلیمانی سیکرٹریز کے تقرر کی منظوری دے دی ہے۔ پنجاب میں پارلیمانی سیکرٹریز کا معاملہ کئی ماہ سے التوا کا شکار تھا جسے وزیر اعلیٰ کی طرف سے مزید تاخیر کا شکار نہیں ہونے دیا گیا۔ مریم نواز نے پارلیمانی سیکرٹریز کا تقرر کر کے اچھا اقدام کیا ہے اور دیگر معاملات سے متعلق بھی ایسے فیصلے کرنے کی بھی ضرورت ہے، مثلاً محکمہ اعلیٰ تعلیم کو دیکھا جائے تو اس میں بہت سی تقرریاں ہونے والی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے چھ ماہ کے دوران تعلیم کے شعبے کی طرف خصوصی توجہ دی ہے اور کئی پروگرام شروع کیے گئے ہیں مگر اس کی پیشرو حکومتوں کی طرف سے بہت سی اہم تقرریاں نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ صوبے کی 51 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 28 کے وائس چانسلر مستقل تعینات نہیں ہیں۔ اسی طرح سے 800 سے زائد سرکاری کالجوں میں سے تقریباً آدھے ایسے ہیں جن کے پرنسپل بھی ابھی تک مستقل بنیادوں پر مقرر نہیں کیے گئے اور لمبے عرصے سے ایڈہاک بنیاد پر کام چلایا جا رہا ہے۔ مستقل تعیناتیاں نہ ہونے کی صورت میں کئی مسائل جڑ پکڑ رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک خبر کے مطابق لاہور میں موجود ایم اے او کالج کی بجلی کٹ گئی ہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ کالج 17 لاکھ روپے کا بل ادا نہیں کر پایا۔ بل کے ادا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایم اے او کالج میں اس وقت کسی بھی شخص کے پاس مالی معاملات کا اختیار نہیں ہے۔ یہ تو ایک ادارے کا ایک سنگین مسئلہ ہے، دیگر اداروں میں بھی کئی طرح کے مسائل موجود ہیں۔ ایڈہاک بنیادوں پر کام کرنے والے سربراہان کے اختیارات محدود ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے افراد کئی کام کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ تعلیم کسی بھی ملک اور معاشرے میں اہم ترین شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی سے نوجوان نسل کی کردار سازی ہونا ہوتی ہے۔ با مقصد تعلیم ہی قوموں کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ ان مقاصد کا حصول تب ہی ممکن ہے جب تعلیم کے شعبے میں کسی قسم کا خلا موجود نہ ہو۔حکومت شعبہ تعلیم کے مسائل ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے۔ اس اہم ترین شعبے کے لاوارث ہونے کا تاثر کسی صورت نہیں ملنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن