وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم مصمم ارادے اور اجتماعی بصیرت کے ساتھ بلوچستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کریں گے اور دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ بلوچستان میں پیش آنے والے حالیہ دلخراش واقعے پر پوری پاکستانی قوم غمزدہ ہے ، دہشت گردی کے گھنائونے منصوبے کے تحت بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کا سرکچلا جائے گا۔ جمعرات کو کوئٹہ میں نیشنل ایکشن پلان کی صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 26اگست کو بلوچستان میں دہشت گردی کا جو واقعہ پیش آیا اس کی وجہ سے پورے پاکستان کے عوام میں تشویش کی لہر دوڑگئی ہے لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم اجتماعی بصیرت و قوت ارادی اور غیرمتزلزل ارادے کے ساتھ بلوچستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کریں گے۔
وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں خارجی عناصر نے دہشت گردی کا منصوبہ بنایا اور بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہایا جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایف سی، لیویز اہلکاروں سمیت عام شہری شامل ہیں لیکن شہداء کا لہو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے مزید کہا کہ بلوچستان میں قابل اور ہونہار افسران کی تعیناتی ضروری ہے، بلوچستان میں افسروں کی تعیناتی سے متعلق پالیسی بنائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے تاثر ہے کہ سول افسران بلوچستان آنے سے کتراتے ہیں، پالیسی پر وفاقی اور صوبائی حکومت کو عمل کرنا ہوگا۔ بلوچستان میں تعینات افسروں کو مراعات دی جائیں گی۔ بلوچستان میں قیام امن کے لیے سب کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ اجلاس میں سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کو مزید مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ، محکمہ انسددادِ دہشت گردی،پولیس، لیویز اور دیگر متعلقہ محکموں کی استعداد کار بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
ادھر، بلوچستان کی سکیورٹی اور دیگر امور سے متعلق تمام عوامی نمائندگان نے معصوم پاکستانیوں کو نشانہ بنانے والے بزدلانہ دہشت گرد حملوں کی واضح الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لانے کا عزم کیا ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت بلوچستان کی سکیورٹی اور دیگر امور سے متعلق تمام عوامی نمائندگان کا اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے بلوچستان کے عوامی مسائل کے بارے میں وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ اجلاس کے دوران بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال اور دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشنز کا جامع جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء نے بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے متاثرین کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور مزید معصوم جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے بروقت جواب دینے پر سکیورٹی فورسز کی بہادری کو سراہا۔ اجلاس میں معصوم پاکستانیوں کو نشانہ بنانے والے بزدلانہ دہشت گردانہ حملوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی۔
دوسری جانب، دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کا کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں، افغان حکومت پاکستانیوں کی خونریزی میں ملوث دہشت گردوں اور گروہوں کے خلاف کارروائی کرے، افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ علاقائی شراکت داروں کی مشاورت کے بغیر نہیں کریں گے۔ وزارت خارجہ نے عالمی یومِ متاثرین دہشت گردی پر جاری اپنے بیان میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے دوران جانیں دینے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے بارہا افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال کا معاملہ اٹھایا ہے، افغانستان میں دہشت گرد گروہوں اور کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی اداروں کی رپورٹوں سے ثابت ہے، پاکستان نے افغانستان کو دہشت گردی پر انٹیلی جنس معلومات فراہم کی ہیں تاہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی پر انٹیلی جنس شیئرنگ کے حوالے سے معلومات جاری نہیں کرسکتے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان متعدد رابطے کے چینلز موجود ہیں جہاں پر دہشت گردی پر شواہد کا افغانستان کے ساتھ تبادلہ کیا جاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وارداتیں معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ایک طرف جانی و مالی نقصان ہورہا ہے تو دوسری جانب بیرون ممالک میں موجود سرمایہ کاروں کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان تو بہرطور موجود ہے اور اس کے تحت ہمارے سکیورٹی ادارے ان دہشت گردوں کو کیفر کردار تک بھی پہنچائیں گے جو معصوموں کا خون بہا کر ملک میں بد امنی پھیلا رہے ہیں تاہم ہمیں بلوچستان سمیت ان تمام علاقوں کی محرومی دور کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں جہاں عوام بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ اس سلسلے میں ہونہار افسران کی بلوچستان میں تعیناتی کا فیصلہ بھی ایک مثبت اقدام ہے۔ علاوہ ازیں، بلوچستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی ہنگامی اقدامات کیے جانے چاہئیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ جو بھی عناصر عوام تک ان سہولیات کی فراہمی کے راستے میں رکاوٹ بنیں گے یا امن و امان کو تباہ کرنے کی کوشش کریں گے ریاست ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹتے ہوئے انھیں نشانِ عبرت بنادے گی۔