اسلام آباد (وقائع نگار+نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کا اجلاس اپوزیشن کے ہنگامہ آرائی اور شورشرابے میں پیرتک ملتوی کردیاگیا ،پی ٹی آئی کے کورم کی نشاندہی کے باعث جمعہ کو سپیکر نے ایوان کا اجلاس ایک گھنٹہ کے لیے موخر کیا جو بعدازاں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان معاملات طے ہوجانے پر دوبارہ بارہ بجے شروع کیا گیا ۔ اجلاس میں وقفہ سوالات مختصر کیا گیا اور صرف ایک سوال پاکستان پیپلزپارٹی کے آغا رفیع اللہ کا لیا گیا جبکہ باقی ایجنڈا پیر کے سیشن کے لیے موخر کردیا گیا ۔ وقفہ سوالات کے بعد سپیکر نے قائد حزب اختلاف عمرایوب خان کو نقطہ اعتراض پر بات کرنے کا موقع دیا تو عمرایوب خان نے ایوان کی توجہ حکومت کی جانب سے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ہزاروں ملازمین کی ملازمتیں ختم کیے جانے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت خدا کا خوف کرے ملک میں پہلے ہی روزگا ر کے مواقع کم ہیں ہزاروں لوگوں کے روز گار ختم کرکے ان کے گلے نہ گھونٹے جائیں۔ عمرایوب نے کہا جیل میں کئی گئی گھنٹے عمران خان سے ملاقات کے لیے خوار کیا جاتا ہے، انہوں نے قائمہ کمیٹی میں افسران کی عدم شرکت کی بھی نشاندہی ، کاروائی کا بھی مطالبہ کیا۔ مطالبہ کیا کہ ملک میں ہونے والی جبری گمشدگیوں کا نوٹس لیا جائے۔ بعدازاں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پی ٹی آئی رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اصل میں این آر او مانگ رہے ہیں، واضح کر دوں آپ کے لیڈر سابق وزیر اعظم عمران خان کو این آر او نہیں ملے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے بھی پی ٹی آئی اور اس کے بانی عمران خان پر کڑی تنقید کی۔ آج ان کو بلوچستان بدامنی کی بات یاد آرہی ہے، اس کی بنیاد انکے دادا ابو نے رکھی تھی۔ حنیف عباسی نے کہا کہ یہ کسی جیل ہے جس میں دیسی مرغی اور مکھن بھی ہے، ڈیمانڈ کی جاتی ہے کہ ایک ریسٹورنٹ سے ناشتہ لایا جائے، جیلوں میں باقی قیدیوں کو بھی یہ سہولیات میسر ہونی چاہییں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ شخص ہے (عمران خان) جس نے رانا ثنا اللہ کی جیل میں لی گئی تصویر مانگی۔حنیف عباسی نے کہا کہ جیل سپرنٹینڈنٹ کو اس لیے تبدیل کیا کہ وہ یہ چیزیں سپلائی کرتا تھا، آپ کو ان کے سیل سے ممنوعہ اشیا ملیں گی ، اسپیکر نے حنیف عباسی کے الفاظ حذف کردیے۔