ملتان (ظفر اقبال سے) آزاد فضائوں میں سانس لینا نعمت خدا وندی ہے جتنا بھی ہم اس کا شکر ادا کریں ہرگز ادا نہیں کر سکتے۔ ہجرت کے دن یاد آتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ضلع لدھیانہ سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے تحریک پاکستان کے مجاہد چوہدری بشیر احمد گجر نے ’’ہم نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ میں کیا انہوں نے کہا کہ ایک رات اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے باہر چند مسلمان نوجوان ہاتھوں میں کلہاڑیاں اور بندوقیں لئے پہرہ دے رہے تھے کہ میرے ابا جی کے ایک سکھ دوست نے انہیں رات کی تاریکی میں بلایا اور کہا کہ جس طرح بھی ممکن ہو راتوں رات گائوں چھوڑ کر بھاگ جائو اور اپنی جوان بچیوں کو بھی لے جائو کیونکہ صبح ہوتے ہی آپ کے گائوں پر حملہ کرنے اور آگ لگانے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے ان دنوں سب سے بڑا مسئلہ نوجوان لڑکیوں کی عزتوں کو بچانا تھا جب بھی سکھ اور ہندوئوں گائوں پر حملہ آور ہوتے سب سے پہلے جوان بچیوں کو اٹھا لیتے اور پھر ان کے والدین کے سامنے ان بچیوں کی عزتیں تار تار کر دیتے بس راتوں رات میرا ابا جی اور تایا جی نے خواتین کو ساتھ لیا اور گھر سے بغیر کچھ اٹھائے اللہ پاک کا نام لیکر روانہ ہوئے دریائے ستلج کی روانی اپنے عروج پر تھی نوجوانوں نے ایک پلان ترتیب دیا۔ جنگل سے بڑی بڑی لکڑیاں کاٹیں اور دریا کو پار کرتے ہوئے آگے آگے لکڑیاں پانی میں رکھتے ہوئے جہاں پانی گہرا ہوتا ہمارا قافلہ رخ تبدیل کر لیتا۔ اس دوران جوانوں نے بچیاں اور معصوم بچے اپنی پشت پر اٹھا کر انہیں پار کروایا۔ شدید بارش نے اور مشکلات پیدا کر دیں دریا پار کرتے ہوئے ایک تیز لہر قافلہ میں شامل کئی افراد کو بہا کر لے گئی بالآخر سٹیشن پر پہنچے مال گاڑی میں سوار ہو کر لاہور سٹیشن پر پہنچے۔ لاہور سٹیشن پر گاڑی رکی تو سب لوگ سجدہ ریز ہو گئے وطن کی مٹی کو بوسہ دیا اس دوران جذباتی مناظر بھی تھے لوگ دیوانہ وار نعرے لگا رہے تھے کچھ گھنٹے لاہور قیام کے بعد ملتان کی طرف گاڑی روانہ ہوئی۔