ڈیلی میل کاعطا کردہ خطاب ’’Disgraced وزیراعظم‘‘

 سبھی جانتے ہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی، انگلستان میں ایک کالج ریسرچ یونیورسٹی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1096 کے اوائل سے یونیورسٹی  میں تدریس کے شواہد ملتے ہیں جو اسے انگریزی بولنے والی دنیا کی قدیم ترین  دوسری یونیورسٹی بناتی ہے۔یاد رہے کہ 1167 سے اس میں تیزی سے اضافہ ہوا، جب ہنری دوم نے انگریزی طلباء کو پیرس یونیورسٹی میں جانے پر پابندی لگا دی۔ کہا جا تا ہے کہ طلباء اور آکسفورڈ کے شہروں کے لوگوں کے درمیان تنازعات کے بعد، آکسفورڈ کے کچھ ماہرین تعلیم شمال مشرق سے کیمبرج فرار ہو گئے، جہاں 1209 میں، انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی قائم کی۔ دونوں انگریزی قدیم یونیورسٹیوں میں بہت سی مشترکہ خصوصیات ہیں اور انہیں مشترکہ طور پر آکسبرج کہا جاتا ہے۔
اسی ضمن میں ممتاز برطانوی اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ کی خبر کے مطابق عمران خان نے  آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑنے کا جو اعلان کیا،اس پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ڈیلی میل کے مطابق عمران خان کے الیکشن لڑنے کے فیصلے کے خلاف آکسفورڈ یونیورسٹی میں سخت اشتعال اور مظاہرے شروع ہو گئے ہیں اور ڈیلی میل نے اپنی سرخی میں عمران خان کو Disgraced وزیراعظم کا خطاب دیا ہے۔ تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کو عمران خان کے چانسلر کا الیکشن لڑنے کیخلاف غم و غصّے سے بھری بڑے پیمانے پر ای میلز اور احتجاجی پٹیشن موصول ہونا شروع ہو گئیں ہیں اوران ای میلز میں بانی پی ٹی آئی کو اکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے لیے نامناسب ترین امیدوار قرار دیا گیا ہے۔اس ضمن میں اس برطانوی اخبار کے مطابق کرپشن کیسز میں سزا یافتہ شخص کا آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے بڑے تعلیمی ادارے کے چانسلر کا الیکشن لڑنا قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
 قا بل ذکر ہے کہ طالبان اور اسامہ بن لادن کی پرجوش حمایت پر مبنی عمران خان کا  شدت پسند موقف چانسلر کا امیدوار بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آیاہے۔ڈیلی میل کے مطابق  بانی پی ٹی آئی نے کئی موقعوں پر طالبان کی حمایت اور ان  کے شدت پسند ایجنڈے کا پرچار کیاتھا  - علاوہ ازیں بانی پی ٹی آئی کے خلاف یونیورسٹی کو موصول پٹیشن میں اس طرح کے مزید ذاتی اور پبلک مفادات سے متصادم باتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور اسی تنا ظر میں بانی پی ٹی آئی کی نجی زندگی کی بابت بھی بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان نے کئی بار کہا کہ خواتین کا مختصر لباس ان کی آبرو ریزی کے واقعات کی بڑی وجہ ہے اور ایسے لباس کے اثرات صرف روبوٹس پر نہیں ہوتے۔ مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کے حامیوں پر عمران خان کے مخالفین کو ہراساں کرنے کا بھی الزام ہے  اور ان کے حامی موصوف پر ہونے والی تنقید کو روکنے کیلئے سوشل میڈیا ٹرولنگ سے  کام لے رہے ہیں۔
 ’’ڈیلی میل‘‘کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کی انسانیت کے احترام، اخلاقی اقدار اور لیڈر شپ کے اعلیٰ معیار کے حوالے سے قابل قدر تاریخ ہے اور ایسے میں عمران خان کا چانسلر کا الیکشن لڑنا اسے داغدار کر دے گا۔دوسری جانب اسی حوالے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو آکسفورڈ یونیورسٹی کا نہیں اڈیالہ جیل کے قیدیوں کا الیکشن لڑنا چاہیے۔اپنے ایک بیان میں عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ جو شخص پورے پاکستان سے زیادہ مغرب کو جانتا تھا اس کو آج مغربی میڈیا ’’ڈس گریس‘‘ کا لقب دے رہا ہے، عمران خان کی کرپشن کی داستانیں 4 سال سے عالمی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مسلسل دو مرتبہ پی ٹی آئی دور میں کرپشن انڈیکس اوپر جانے کی نشاندہی کی۔
 اسی حوالے سے پنجاب کی وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ دونوں میاں بیوی نے 45 ماہ وزیراعظم اور خاتون اول کے عہدوں کو OLX پر چڑھائے رکھا، دامن میں توشہ خانہ کی گھڑیاں اور 90 ملین پاؤنڈ چھپائے آکسفورڈ کے چانسلر کا الیکشن لڑنے چلے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کی ناکام بغاوت کے سنگین مقدمات انڈر ٹرائل ہیں اور کرپٹ پریکٹسز اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ جیسے مقدمات میں سزا یافتہ شخص کا آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑنا ویسے ہی باعث ندامت ہے۔ مبصرین نے یاددلایا ہے کہ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی معروف فنکارہ نے عمران خان کی ذاتی زندگی اور کردارکے حوالے سے 10ماہ قبل جو انکشافات کیے تھے وہ یقینا ایسے ہیں جن کو پوری طرح سے احاطہ تحریر میں بھی نہیں لایا جا سکتا۔
  یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس خاتون نے اس حوالے سے جو کتاب تحریر کی تھی اور جس میں اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے،ان کو بھی شائع ہونے یا نشرہونے سے رکوا دیا گیا تھا۔بعض مبصرین کے مطابق اس سے قبل آئلہ ملک کے جو انٹرویو سامنے آئے تھے جن میں عمران خان کے غیر اخلاقی معاملات کو اجاگر کیا گیا تھاانہیں بھی مختلف مصلحتوں کی بنا پر عمرانی میڈیا نے عوام تک پہنچنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے باشعور حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ عمران خان نے پچھلے چند سالوں میں جس طرح سے جعلی بیانیے کے ذریعے اپنی پارٹی اور حکومت کو چلایا اور اس کے بعد پچھلے دو سالوں میں محض سوشل میڈیا کے بل بوتے پر سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید دیکھانے کا عمل جس انتہائی مہارت سے انجام دیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے اور اس پر باقاعدہ تحقیق ہونی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن