یادیں

 میرے ددھیال ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے ساتھ ملحقہ گائوں پیچو کے میں ہیں۔ میرے جدِ امجد پیر جان محمد سرکار المعروف پیر جانے شاہؒ ایک مجذوب ولی کامل اور درویش منش بزرگ تھے۔ میرے دادا جان پیر سیّد اللہ حیات اور پیر سیّد محمد زاہد یہ دو بھائی تھے۔ جدِ امجد پیر جانے شاہ سرکارؒ اور یہ دونوں بھائی پکّے سُنی العقیدہ مسلمان تھے۔ میرے والد گرامی جناب پیر سیّد کرامت علیؒ کے ’’اپنوں‘‘ نے ہم پر بچپن میں بہت مظالم ڈھائے۔ ہمیں مجبوراً اپنے ننھیال گجرات جانا پڑا۔ محترم والد گرامی بھی اپنوں کے مظالم اور ناانصافیوں کے سبب دلبرداشتہ ہوگئے۔ ہمارے ننھیال جانے کے بعد جناب والد گرامی نے اپنی زندگی پیر جان محمد سرکارؒ کے مزار کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ اپنے ہاتھوں سے مزار میں جھاڑو دینا، چراغاں کرنا۔ ادب کا یہ عالم تھا کہ محترم والد گرامی ساری زندگی پیر جان محمد سرکار کے مزار کے سامنے چارپائی پر نہیں بیٹھے۔ نیچے زمین پرصف پر بیٹھا کرتے۔ہم بہن بھائیوں کی پرورش ننھیال گجرات میں ہوئی۔ محترم والد گرامی جناب سیّد کرامت علیؒ ساری عمر ہمیں دُعائوں سے نوازتے رہے۔ جدِ امجد پیر جان محمد سرکارؒ سے کئی کرامات منسوب ہیں۔ میری ایک کتاب جدِ امجد پیر جان محمد سرکار کے حوالے سے انشاء اللہ بہت جلد منظرِ عام پر آ جائے گی جس میں اُن کی حیات اور کرامات کا تفصیل سے ذکر ہوگا۔ یہ بھی اُن کی ایک زندہ کرامت ہے کہ والد گرامی سیّد کرامت علی اُن کا جھاڑو دیتے رہے اور پیر جان محمد سرکارؒ کا ہی یہ فیضان ہے کہ میرا چھوٹا بھائی انگریزی میں Ph.Dکرنے کے بعد یونیورسٹی آف گجرات میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ماشاء اللہ ناچیز کی اُردو زبان و ادب کے حوالے سے 22کتب شائع ہو چکی ہیں جو کہ یونیورسٹیوں کے ایم۔ اے اور پی ایچ۔ ڈی کے نصاب میں شامل ہیں۔ میری 22 کُتب پر بارہ طالب علم مقالات لکھ کر ایم۔فل اُردو کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ 18سال سے پاکستان کے سب سے بڑے قومی اخبار روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں مستقل طور پر کالم شائع ہوتا ہے۔ مجھے بابائے صحافت جناب محترم مجید نظامی صاحب کی شاگردی میں لکھنے کا اعزازحاصل ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی؟

 پسرور شہر میں سیّد غلام جیلانیؒ مرحوم رہائش پذیر تھے۔ یہ میرے عزیزتھے۔ 25 سال قبل میرا اِن کے پاس آنا جانا شروع ہوا۔ ظاہری و باطنی طور پر انتہائی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا دل خوفِ خدا سے لبریز اور صوم و صلوٰۃ کے پابند بہت ہی باکمال شخصیت کے حامل تھے۔ میرے ساتھ دلی شفقت فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ میں لاہور سے خصوصی طور پر ان کی خدمت میں شرفِ ملاقات کے لیے حاضرہوتا تو تین تین چار چار روز اُن کے پاس قیام کرتا۔ میرے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر کبھی میرے حاضر ہونے میں دیر ہو جاتی تو اپنے بیٹے سیّد عامر جیلانی کو فرماتے کہ روح الامین کو فون کرو کہ اتنی دیر ہوئی چکر کیوں نہیں لگایا؟ جب میں حاضرہوتا تو دلی خوشی کا اظہارفرماتے۔ جناب سیّد غلام جیلانیؒ ، جناب سیّد پیر احمد شاہ صاحب کے گھر 1934 ء میں پیدا ہوئے۔ اِن کے دو بھائی اور تین ہمشیرہ تھیں۔ اِن کے آبائو اجداد خانپور سیداں تحصیل پسرور میں مقیم تھے۔ میرے بزرگ دوست جناب سیّد غلام جیلانی انتہائی خوددار شخصیت کے مالک تھے۔ ساری زندگی مختلف اداروںمیں ملازمت کی۔ ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپارٹمنٹ سیالکوٹ سے منسلک رہے۔ ان کی اولاد میں پانچ صاحبزادے سیّدغلام ربانی، سیّد خالد حسین، سیّد مُدثر، سیّد کاشف اور سیّد عامر جیلانی اور ایک صاحبزادی ہیں۔ جناب سیّد غلام جیلانی کی وضع داری اور خودداری کا یہ عالم تھا کہ اپنے بچوں سے بھی خرچہ نہیں لیتے تھے۔ فرماتے کہ ماشا ء اللہ میری پنشن سے ہم دونوں میاں بیو ی کا بہت اچھا گزارا ہوتا ہے۔ قناعت پسند، مہمان نواز، خاتم النبیّین حضرت محمد صلی اللہ علی وآلہٖ وسلم کے عاشق اور اولیاء اللہ کے دل و جان سے گرویدہ تھے۔ بالآخر 9اگست 2013ء کو اس جہانِ فانی سے رُخصت ہو گئے۔ ان کی تدفین ان کی وصیّت کے مطابق فقیرانوالی (ڈسکہ) میں کی گئی۔
 جناب سیّد غلام جیلانی کی رحلت کے گیارہ سال بعد ان کی شریک حیات سیّدہ ارعاد بیگم جن کو میں خالہ جی کہتا تھا، گذشتہ ماہ 22 جولائی 2024ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئیں۔ خالہ جان بھی ناچیز کو دل و جان سے عزیزرکھتی تھیں۔ جب میں پسرور جاتا ، بہت خوشی کا اظہار فرماتیں۔ جناب سیّد غلام جیلانی کی وفات کے بعد ویسے میرا دِل اُداس ہو گیا، میں نے جانا بہت کم کر دیا۔ چونکہ وہ گھر میں نظر نہیں آتے تھے۔ اُن کی یادیں تڑپاتی تھیں۔ خالہ جا ن اکثر شکوہ بھی فرماتیں کہ روح الامین اب تم کیوں نہیں آتے۔ مجھے ان دونوں شخصیات نے بہت ہی پیار دیا۔ میرے لیے ان کی حیثیت والدین سے کم نہ تھی۔ جناب سیّد غلام جیلانی کی زندگی میں جب میں حاضرہوتا تو خالہ  جان فرماتیں روح الامین یہ تمھیں بہت یاد کرتے رہتے ہیں۔ آ ج خالہ جان کی رسمِ چہلم (31۔ اگست 2024ء) ادا کی جا رہی ہے۔ دل خُون کے آنسو رو رہا ہے۔ یُوں محسوس ہو رہا ہے کہ میں بھی یتیم ہوگیا ہوں۔ خالہ جان بھی ماشاء اللہ آخری سانس تک صوم و صلوٰۃ کی پابند اور تلاوتِ کلام پاک اور درود شریف کا ورد عمر بھر معمول رہا۔ خالہ جان کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ سیّدہ نسیم اختر رشتے میں میری چچی بھی ہیں۔ وہ بھی خوبصورت شخصیت کی مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کوہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین!
 بلاشبہ یہ زندگی عارضی اور فانی ہے۔ روزِ ازل سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ’’کل من علیہا فان‘‘ کے مصداق ہر ذی روح نے اس دنیا سے جانا ہے۔ جانے والے تو چلے جاتے ہیں مگراُن کی یادیں پسماندگان کو تڑپاتی رہتی ہیں۔ اللہ کریم ان سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے۔ آمین!
؎  بلندیوں کے مکینو! بہت اُداس ہیں ہم
   زمین پہ آ کے کبھی ہم سے گفتگو تو کرو
 گذشتہ دنوں برادرم شاہد اقبال کی بھانجی کا سیالکوٹ میں انتقال ہو گیا تھا۔ اللہ کریم اُن کی بھانجی کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین!

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن