سولہ اگست 2024: جمعہ کی دوپہر جب اپنے ساتھی دوست ایڈووکیٹ عمار سحری کی کامیاب انجیو گرافی کے بعد اسپتال سے خوشی خوشی واپس جا رہا تھا راستے میں ایک بابا جی کی آنکھوں سے انکھیں مل گئیں ، گاڑی روکی اور بابا جی کو ساتھ بٹھا لیا۔ میں نے کہا آپ سے ملتے جلتے میرے بابا کرمو ہیں، کہا وہ میرے بڑے بھائی ہیں۔ میرا نام بابا نیکو ہے ،میں لاہور کا رہائشی ہوں۔ ابھی میں بابا کرمو سے ملنے جارہا ہوں۔ مسکرا کر بتایا کہ ہو سکتا ہے میں بھی یہی شفٹ ہو جاؤں۔ پوچھا یہاں آپ کس کی تیمارداری کے لیے آئے تھے۔ کہا کسی کو خون دینے آیا تھا۔ اس مریض کو میرے گروپ کے خون کی اشد ضرورت تھی۔کہا یہ گروپ نایاب ہے۔ اللہ کریم نے میری اس نیکی کوقبول کر لیا ہے۔ پوچھا وہ کیسے۔کہا ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ اسکا آپریشن کامیاب ہوا ہے۔ پھر بغیر ہاتھ دیئے آپ نے مجھے کار میں لفٹ دی۔ کہا اللہ نے میرے کام کو قبول کر کے میرے لیے آسانیاں پیدا کر دیں۔ راستے میں ایک ریسٹورنٹ پر زبردستی بابا نیکو کو لنچ کرایا۔ پھر ہم بابا کرمو کے گھر پہنچے کہا چائے پینے کی طلب ہے۔ کہا ضرور ملے گی۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ہم سب نے چائے پی۔ دونوں بھائی شکل سے عادات سے ایک دوسرے کی کاپی ہیں۔ پوچھا انہیں بابا نیکو کیوں کہا جاتا ہے کہا اس لیے کہ یہ ہمیشہ نیک کاموں کے کرنے کے متلاشی رہتے ہیں اور آپ کو بابا کرمو کیوں کہتے ہیں۔ کہا میں جس سے ملتا یوں جس کے ہاں جاتا ہوں وہ ذات ان پر اپنا کرم کر دیتی ھے۔رحمتیں نازل کر دیتی ہے۔اس لیے مجھے بابا کرمو کہاجاتا ہے۔پھر ہمیں واک کی دعوت دی۔ جسے ہم نے قبول کر لیا۔ہم تینوں قریبی پارک میں واک کرنے لگے۔ پوچھا آپ کی گلی میں کتے بہت ہیں۔ انہیں پولیس کو کیوں نہیں دے دیتے۔ کہا میں نے تھانیدار سے بات کی تھی کہ اپ مجرموں کو پکڑنے کے لیے کتوں کا استعمال کیوں نہیں کرتے۔کہا کمبخت سونگھتے سونگھتے تھانے پہنچ جاتے ہیں۔ البتہ یہاں کچھ قصاء انہیں لے جاتے ہیں۔ حکومت اگردلچسپی لے تو انہیں ایکسپورٹ کر کے زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ کہا آجکل کے نوجوان تو میڈیا سے پیسے بنانے میں مصروف ہیں۔بابا کرمو نے کہا میڈیا بہت خطرناک ہو چکا ہے۔ احتیاط کریں۔ دشمن اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ نفرتیں پھیلا رہا ہے۔ آپس میں لڑا رہا ہے۔میڈیا نے طوفان بدتمیزی مچا رکھا ہے۔ اس کی زد سے بچنے کی کوشش کریں۔ پوچھا کیا آپ کو کوئی میڈیا سے حادثہ پیش آیا۔ کہا ڈاتی طور پر الللہ نے ابھی تک مجھے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ کہا ابھی حال ہی میں برطانیہ میں جو فسادات برپا ہوئے وہ میڈیا بے لگام ہونے کی وجہ سے ہی تو ہوئے ہیں۔ اس فسادات کی جڑ لاہور سے نکلی ہے۔ ہمارے ہاں فون کا استعمال بے دریخ ہے۔ جس گھر میں موبائل ہے اس گھر کا طوطا بھی اپنی پسند کی وڈیو اس میں دیکھتا ہے۔ بابا نیکو سے کہا کل ہمارے ساتھی وکلا میاں بیوی محترمہ شائستہ خالد ایڈووکیٹ بار میں بیٹی کے ساتھ تشریف لائے تو انہوں نے مجھے اپنے طوطے کی وڈیو دکھائی جو موبائل کا استعمال کرتا دکھاء دیا۔نوجوان موبائل فون سے پیسے بنارہے ہیں۔ برطانیہ میں ہونے والے حالیہ فسادات کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی فرحان نے میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبر پھیلائی جس سے برطانیہ میں بدترین فسادات پھیلے۔کہا جاتا ہے اس شہری کا تعلق لاہور سے ہے۔اس کا کوئی صحافی پس منظر نہیں ہے۔ اس نے میڈیا سے برطانوی عوام کو گمراہ کن خبر دی۔ جس سے آگ بھڑک اٹھی۔ اسے اب گرفتار کیا جا چکا ہے۔ میڈیا کا بے دریغ استعمال جتنا اجکل ہمارے یہاں ہے دنیا میں کئی نہیں۔ اسے منفی ہتھیار کے طور پر اپنے مخالفین کی کردار کشی میں استعمال کیا جا رہا بے۔ اب تو ملکی اداروں اور سیاسی شخصیات پر میڈیا کے ذریعے سے کردار کشی کی جاتی ہے۔ انتشار پھیلانے اور انقلاب لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لاہوری ملزم کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ برطانیہ کبھی نہیں گیا اس نے عمرہ کر رکھا ہے۔باریش ہے۔اس کا بھائی پولیس میں سپاہی ہے۔ ڈیفنس میں کرا? کے مکان میں رہتا ہے۔ اس کی میڈیا سے ماہوار انکم تین چار لاکھ ہے۔ یہ کمپیوٹر سائنس گریجوایٹ ہے۔ ویپ ڈویلپر ہے، اپنا چینل ویب سائٹ پر چلاتا ہے۔ اب اس کا فیس بک اور گوگل اکاونٹ معطل ہے۔جھوٹی خبروں سے آگ لگا کر پیسے بنانا، اسے کہتے ہیں بندر کے ہاتھ میں استرے کا آجانا۔بابا نیکو نے کہا آپ کیا کہتے موجودہ پکڑ دھکڑ کے حوالے سے۔ کہا اگر رزلٹ اچھے آ? تو اداروں کا عوام پر اعتماد بحال ہو گا میں اکثر کہتا اور لکھتا بھی ہوں۔کہا جاتا ہے اگر کسی نے عوام کے بارے میں جاننا ہو تو وہ اس ملک کی ٹریفک نظام کو دیکھے۔میں روز اسلام آباد ایکسپریس سے سپریم کورٹ آتا جاتا ہوں۔ اس پر چار سے پانچ لائن ہیں۔ یہ ایکسپریس سگنل فری ہے۔مگر بارش ہوتے ہی موٹر سائیکل سوار ایکسپریس کے پلوں کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں جس سے صرف ایک لائن چلتی ہے جس سے ٹریفک کا برا حال ہو جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس کھڑی دیکھتے رہتی ہے۔ ان پلوں کے نیچے اگر لکھ دیا جائے کہ ایکسپریس پر کھڑے ہونا منع ہے۔ کھڑا ہونے والے پر ایک ہزار روپے جرمانہ ہو گا تو یہ کھڑا ہونا بند کر دیں گے۔ پولیس کے کام چوروں کی وجہ سے کسی کو نہیں معلوم کہ مجھے کس لائن میں کار، بس اور موٹرسائیکل چلانی ہے۔ بے چین روح کی طرح گاڑیوں والے زگ زیگ بناتے ہوئے ایک لائیں سے دوسری میں گھستے رہتے ہیں۔کہا جاتا ہے یہاں سب سیٹرنگ ڈرائیور ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ یہاں کوئی سیکھ کر نہیں آتا۔ پیسے دے کر لائنس لیتے ہیں۔ ان میں روڈ سنس نہیں۔ موٹر سائیکلوں والوں نے ڈرائونگ کرنا مشکل کر رکھا ہے۔یہ دو تین کو بٹھا کر رش آور میں بھی کرتب دکھانے سے باز نہیں آتے۔ کوئی انہیں روکنے ،پوچھنے اور بتانے والا نہیں کہ بائک والے کو کس لائن میں چلنا ہے۔ انکی وجہ سے روز حادثات پیش آتے ہیں یہ نوجوان مرتے دیکھتے ہیں قصور وار کاروں والوں کو ٹھہرا یا جاتا ہے۔ یہی حال پیدل چلنے والوں کا ہے جہاں جی جہاں روڈ کراس کر لیتے ہیں اور قصور وار گاڑیوں والوں کا قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی لاقانونیت نے دوسروں کی زندگیاں اجیرن کررکھی ہیں۔ ٹریفک پولیس کچھ نہیں کرتی۔کئی نظر نہیں آتی۔ جائیں تو جائیں کہاں۔ لگتا ہے جیسے ہم نے خود کچھ نہیں کرنا صرف اللہ میاں نے ہی سب کچھ کرنا ہے۔ یہاں قانون نہیں سزا کا نظام نہیں۔ کہا سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے تقریر کی ٹی وی انڑویوز میں بتایا کہ بابا فیض حمید بابا ثاقب نثار بابا کھوسہ بابا گلزار کیا کیا گل کھلاتے تھے ان سب کے خلاف اگر حکومت ایکشن لے تو صدیقی صاحب کے ثبوت انہیں سزائیں دلانے کے لیے کافی ہیں۔چلیں سزائے موت نہ سہی عمر قید ہی دے دیں۔انکی سہولیات پنشن ہی ختم کردیں جائدادیں ضبط کردیں۔کچھ نہ کچھ تو کریں۔تانکہ پتہ چلے ملک میں کوئی قانون ہے۔ بابا نیکو سے کہا بہت سے دوسرے مسائل بھی ہیں جیسے یہاں کھانے پینے کی اشیا ملاوٹ شدہ ہیں۔ بابا نیکو نے کہا احتیاط بھرتی جائے۔ کہا نیکو نے کہا کچھ ایسی دوائیں ھیں جن کے استعمال سے بیماریاں نہیں ھوتیں مثلاً ورزش بھی ایک دوا ہے۔اسی طرح صبح کی سیر، روزہ ہے، گھر والوں کے ساتھ کھانا بھی دوا ہی کی ایک شکل ہے۔ہنسا کریں گہری نیند سویا کریں ،پیاروں کے ساتھ وقت گزاراکریں خوش رہا کریں خاموشی بھی دوا ہے ،لوگوں کی مدد کرنا بھی دوا ہے۔ آپکے اچھے اور مخلص دوست مکمل میڈیکل اسٹور ھیں، بابا نیکو کی خوبصورت باتیں ابھی جاری تھی کہ اس دوران گھر سے فون آ گیا لہذا واک کو ادھورا چھوڑ کر بابا نیکو اور بابا کرمو سے اجازت لی اور گھر کی طرف چل دیا۔