مسلم دنیا کے سینے میں زہر کی پان دیا خنجر کس نے اتارا تھا؟ انہوں نے ہی جو گلے میں وہ صلیب لٹکائے پھرتے ہیں جس پر یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لٹکا دیا تھا مگر نہیں وہ اکیلے مسلمانوں کے سینے میں خنجر نہیں اتار سکتے تھے۔ اس صلیبی جنگ میں ان اہل فساد نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا جن کے عرب ہونے کا جذبہ ان کے مسلمان ہونے کے جوش ایمانی پر غالب آگیا تھا۔ جب تک خلافت عثمانیہ قائم رہی۔ اپنی ساری کمزوریوں اور مجبوریوں کے باوجود کسی بھی خلیفہ نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری قبول نہیں کی تھی۔ صلیب پوش لارنس آف عریبیہ نے شیوخ کو مسلمان سے عرب بنا دیا۔ ان کو ترغیب دی‘ ان کی مدد کی اور وہ خلافت عثمانیہ کیخلاف اس صلیبی جنگ عظیم میں شامل ہوگئے تھے۔ عرب مسلمانوں نے مسلمانوں کی خلافت کے خاتمہ کی صلیبی جنگ میں حصہ لے کر فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری اور یہودی ریاست کے قیام میں بھرپور حصہ لیا۔ مسلم دنیا کے قلب میں زہر کی پان دیا خنجر اتارنے میں صلیبیوں کی جان توڑ مدد کی تھی۔ عرب مسلمان سے زیادہ عرب بن گئے تو ترک بھی ترک بن گئے۔ ان کا ملک ترکی جیسا بھی ہے‘ امن کی چادر اوڑھے رہتا ہے۔ عرب دنیا کو اس کے شیوخ کو اس کے حکمرانوں کو اور سلطانوں کو اسکے بعد سے کبھی امن اور سکون نصیب نہیں ہوئے۔ ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی ہے۔ عراق میں آج کل صلیبی فوجوں کی مدد کرنے والے سب سے بااثر شیخ کے باپ نے تو اس کا نام ہی لارنس آف عریبیہ رکھا ہوا ہے۔ اسی لارنس آف عریبیہ کے نام پر جس نے مسلم دنیا کے قلب میں وہ زہر آلود خنجر اتارنے کی سکیم بنائی اور کامیاب کروائی تھی۔ آج دنیا میں جہاں بھی کوئی مسلمان ہے‘ تڑپ رہا ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کی بے بسی‘ بے کسی اور ان کے خون پر خون کے آنسو بہا رہا ہے۔ وہ سب مسلمان بھی تڑپ رہے ہیں جن کے اجداد کا اس گناہ عظیم میں کوئی حصہ نہیں لیکن تعداد میں اربوں ہونے کے باوجود دنیا بھر کے مسلمان مل کر بھی وہ زہر آلود خنجر اپنے قلب و جگر سے نکال نہیں سکتے۔ افراد کی غلطیوں اور خود پرستیوں کی سزا قومیں صدیوں تک بھگتتی رہتی ہیں۔ مسلمان قوم ان شیوخ کے اجداد کی غلطیوں اور خودغرضیوں اور خودپرستیوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہوا‘ جو کچھ ہورہا ہے‘ اس پر کون ہے جو دکھی نہیں؟ وہ ہر کوئی اس پر دکھی نہیں‘ دکھی نہیں ہوسکتا جس کے گلے میں وہ صلیب ہے جس پر یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو لٹکا دیا تھا۔ ان صلیب پوشوں کی اقوام متحدہ اور اس کی سکیورٹی کونسل کے گلے میں بھی صلیب ہی تو ہے۔ کیوں ہو وہ سکیورٹی کونسل غزہ کے مسلمانوں کے خون پر دکھی؟ ہے کوئی مسلم ملک اس صلیبیوں کی اقوام متحدہ کا مستقل رکن؟ یہ ادارہ تو بنایا ہی صلیبی ممالک کے مفادات کے تحفظ کیلئے گیا تھا اور اپنے قیام کے وقت سے اپنا یہ صلیبی فرض نہایت خوبی سے ادا کرتا آیا ہے اور کرتا رہیگا۔ ممبئی کے بم دھماکوں کا ذمہ دار شیوا جی اور اس ادارے کی قرارداد مسلمانوں کیخلاف… کیوں؟ اپنے وجود کا فریضہ جو ادا کرنا تھا۔ کی ہے کبھی اس ادارے نے اہل کشمیر‘ اہل غزہ کیخلاف کھلے عام اعلانیہ مسلح جارحیت والوں کیخلاف کبھی کوئی ایسی قرارداد منظور؟ دہشت گرد کون ہے؟ وہی جو کمزور ہو‘ بے بس ہو اور مسلمان ہو۔ کرسکتا ہے کوئی امریکی دہشت گردی کا مقابلہ؟ کہا ہے کبھی کسی نے اسرائیل کو دہشت گرد؟ اس دکھ میں تباہی اور بربادی پر ہم سب مسلمان دن رات روتے رہیں تو بھی کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اہل ایمان کو ہر دکھ میں ہر قسم کی مصیبت میں صبر کا حکم دیا ہے‘ صبر کا مفہوم ہے‘ جرأت سے‘ ثابت قدمی سے استقلال سے حالات کا مقابلہ کرنا‘ گھبرا نہ جانا‘ کشمیر میں فلسطین میں‘ غزہ میں‘ اہل ایمان جس صبر سے کام لے رہے ہیں۔ اس جذبہ کو سلام سب پر لازم ہے مگر صرف سلام ہی نہیں جو بھی کوئی جہاں بھی کہیں مسلمان ہونے کا دعویدار ہے‘ اس کا مسلمان ہوجانا بھی لازم ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کہیں کوئی یہودی بستا ہے وہ خالص یہودی ہے۔ ہر عیسائی دنیا میں خالص عیسائی ہے اور سارے ہی خالص عیسائی اور یہودی ہر قسم کے مسلمانوں کیخلاف متحد ہیں‘ عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے بھی جنہیں یہودیوں نے صلیب پر لٹکا دیا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کی اُمت ہونے کے دعویدار یہودی بھی‘ اہل فلسطین‘ اہل غزہ تباہی‘ بربادی اور ظلم کے اس طوفان کا بڑے ہی جذبے اور صبر سے مقابلہ کرتے آئے ہیں اور کررہے ہیں۔ شہادتوں کو سینوں سے لگائے ہوئے تو پھر میں رئوں تو کیا ہوگا؟ بدل جائے گی ان کی تقدیر؟ تو پھر صبر کا دامن چھوڑ دوں؟ میں کیوں رئوں؟
زندگی کے بھنور میں
مرگ سے لپٹے
جنت کی راہ جانے والو
میں کیوں رئوں؟
روئیں موسٰیؑ‘ روئیں عیسٰیؑ
جن کے پیرو
سب مل جل کر
ظلم پر اپنے
خوشی کے نغمے گا رہے ہیں
نیا ظلم ہنڈا رہے ہیں
ہیپی کرسمس منا رہے ہیں
میرے لئے تو پیام حیات میرے قائدؒ کا وہ پیغام ہے جو ایک چینی شاعر کے کلام میں ہے کہ:۔
غم کو غصہ میں بدل لو
اور غصہ کو آگ میں
اور اس آگ کو سو زندہ رکھو
خون سے آبیاری کے بغیر نخل تمنا ہرا نہیں ہوتا
مقاومت کے دست توانا کے بغیر
تم امن اور مسرت حاصل نہیں کرسکتے
کیا عیسٰیؑ اور موسٰیؑ انسانوں اور انسانیت کیلئے یہی پیغام لیکر آئے تھے جس پر ان کے ماننے والے ہر جگہ ہر کہیں عمل کررہے ہیں؟ اگر نہیں تو وہ روئیں کہ انہیں کیسے کیسے ننگ انسانیت پیروکار ملے ہیں۔
زندگی کے بھنور میں
مرگ سے لپٹے
جنت کی راہ جانے والو
میں کیوں رئوں؟
روئیں موسٰیؑ‘ روئیں عیسٰیؑ
جن کے پیرو
سب مل جل کر
ظلم پر اپنے
خوشی کے نغمے گا رہے ہیں
نیا ظلم ہنڈا رہے ہیں
ہیپی کرسمس منا رہے ہیں
میرے لئے تو پیام حیات میرے قائدؒ کا وہ پیغام ہے جو ایک چینی شاعر کے کلام میں ہے کہ:۔
غم کو غصہ میں بدل لو
اور غصہ کو آگ میں
اور اس آگ کو سو زندہ رکھو
خون سے آبیاری کے بغیر نخل تمنا ہرا نہیں ہوتا
مقاومت کے دست توانا کے بغیر
تم امن اور مسرت حاصل نہیں کرسکتے
کیا عیسٰیؑ اور موسٰیؑ انسانوں اور انسانیت کیلئے یہی پیغام لیکر آئے تھے جس پر ان کے ماننے والے ہر جگہ ہر کہیں عمل کررہے ہیں؟ اگر نہیں تو وہ روئیں کہ انہیں کیسے کیسے ننگ انسانیت پیروکار ملے ہیں۔