ادریس جانباز کا حضرت قائد اعظمؒ‘ حضرت علامہ اقبالؒ‘ نظریہ پاکستان اور مسلم لیگ پر عین یقین کی طرح ایمان تھا اور انہوں نے پاکستان کی تعمیر اور مسلم لیگ کے درخشاں مستقبل کیلئے جس دردمندی اور جانفشانی سے مسلم لیگ ہائوس‘ وزیر اعلیٰ ہائوس اور وزیر اعظم ہائوس میں ایک سچے‘ پکے اور ثقہ پاکستانی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ قوم تو یقینا بھول گئی ہو گی لیکن وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ غلام حیدر وائیں مرحوم درویش وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور انہوں نے اپنے گرد دردویش مسلم لیگی اکٹھے کر رکھے تھے وہ جتنا احترام ادریس جانباز کا فرماتے تھے وہ کسی اور کے حصے میں نہ آیا یہ ہمارے سامنے کی باتیں ہیں۔ میرا ایک عرصے تک ادریس جانباز مرحوم سے قلبی‘ نظریاتی اور قومی رشتہ استوار رہا اور میں بہانے بہانے ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرتا‘ لیکن مسلم لیگ ہائوس میں ان کا میز مسلم لیگ کے امور سے متعلق فائلوں سے بھرا رہتا اور وہ فائلوں میں گم رہتے اس دوران انہیں وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا اور اکثر رات گئے گھر کی راہ لیتے۔ مسلم لیگ اور پاکستان سے محبت کا اظہار انہوں نے کئی ایک مواقع پر کیا۔ غلام حیدر وائیں مرحوم وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود ادریس جانباز کے ساتھ بڑی محبت اور شیفتگی رکھتے تھے اور ہر معاملے میں اگر کسی سے دل کی بات کرنا اور مسلم لیگ کی پالیسیوں کو بروئے کار لانا مقصود ہوتا تھا تو وہ فقط جانباز صاحب سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جانباز صاحب انتہائی سادہ انسان دوست احباب سے پیار کرنے والے انسان‘ ہر ایک کے کام آنے والے انسان تھے۔ میں نے اکثر دیکھا کہ کسی کو پلاٹ الاٹ کرانے کیلئے‘ کسی غریب بچے کے وظیفے کیلئے یا کسی کی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کیلئے یا کسی کو گھر لے کر دینے کیلئے اربابِ بست وکشاد سے کہہ رہے ہیں‘ لیکن ان کی عاجزی اور انکساری سے کبھی ایسا محسوس نہ ہوتا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ کے معتمد خاص ہیں ان کی طبیعت کی درویشی اور سادگی ان کی تربیت سازی کو ظاہر کرتی تھی‘ چاہے کتنا ہی بڑا اور گھمبیر کوئی قومی یا سیاسی مسئلہ درپیش ہوتا ان کے چہرے سے اس کی تلخی محسوس نہ ہوتی تھی‘ لیکن وہ دل کی گہرائیوں سے ان مسائل کو اپنے نظریاتی تصورات میں بہت اہمیت دیتے تھے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر قائد اعظمؒ کی اس مسلم لیگ میں ادریس جانباز جیسے چند لوگ آج بھی میسر ہوں تو ہمارے قومی اور نظریاتی مسائل آن واحد میں حل ہو جائیں۔ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ اپنے لئے پلاٹ لے لو میں وزیراعلیٰ سے کہہ دیتا ہوں۔ میں نے کہا آپ نے مسلم لیگ اور تعمیر پاکستان کیلئے ملک کے طول وعرض میں اپنی ہستی سے بڑھ کر خدمت کی ہے۔ پلاٹ یا گھر آپ کا حق بنتا ہے۔ فرمانے لگے ’’پاکستان میرا گھر ہے‘‘ اور یہ پیغام اپنی ذریت کو بھی سمجھا گئے کہ پاکستان کو ہی اپنا گھر سمجھنا۔ ایسی باکمال شخصیت پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے‘ لیکن اس برمحل شعر پر اختتام کرتا ہوں۔
گلاب سے لپٹی ہوئی تتلی کو اڑا کر دیکھو
آندھیو! تم نے درختوں کو گرایا ہو گا