حکومت کا سہارا ہیں نہ کسی ”کٹھ پتلی“ تماشہ کا حصہ بنیں گے‘ اسٹیبلشمنٹ کی غلامی اور مارشل لا قبول نہیں : نوازشریف

لاہور (خصوصی رپورٹر) سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ایک اور مارشل لا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں جمہوریت کی بقاءچاہنے کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم کسی کرپٹ حکومت کی بقاءچاہتے ہیں، ہم حکومت کا سہارا ہیں نہ کسی ”کٹھ پتلی“ تماشہ کا حصہ بنیں گے بلکہ حکومت کا سہارا وہ ہیں جو تین سال سے حکومت کا حصہ ہیں، انقلاب کے نعرے لگاتے ہیں اور پھر اس کرپٹ حکومت کا ساتھ دیتے ہیں اور حکمرانوں کی بدعنوانیوں کے باوجود حکومت میں بیٹھے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسلم لیگ کے 104ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تقریب سے مخدوم جاوید ہاشمی، سید غوث علی شاہ، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، پیر صابر شاہ، راجہ فاروق حیدر، سید حفیظ الدین، شازیہ اورنگزیب، سردار ثناءاللہ زہری نے بھی خطاب کیا جبکہ سرانجام خان، اقبال ظفر جھگڑا، بیگم تہمینہ دولتانہ، ایم حمزہ، غلام دستگیر خان، سلیم ضیائ، سید ممنون حسین، ڈاکٹر درشن لعل، سردار مہتاب احمد خان، خدائے نور، چنگیز خان مری، حافظ حفیظ الرحمن اور ڈاکٹر طاہر علی جاوید بھی موجود تھے۔ نواز شریف نے کہا کہ حکمران مسئلہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ نہیں حکومت نااہلی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی ڈھاکہ کی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے سینئر پارلیمنٹیرین پر مشتمل بااختیار کمیٹی تشکیل دی جائے جو موثر حل سامنے لائے جس پر کمیٹی عمل بھی کرائے۔ انہوں نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی قوت کے مالک پاکستان کو حکمرانوں نے بھکاری بنایا ہے۔ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے بیروزگار گھوم رہے ہیں۔ ملک کی آزادی، خودمختاری داو پر لگی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ اس وقت تحریک پاکستان جیسے جذبے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بھنور سے نکالنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا محاسبہ کرنا ہو گا۔اسٹیبلشمنٹ سقوط ڈھاکہ سے سبق سیکھے، انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کرنے والے پاکستان میں ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی غلامی اور فوجی مارشل لاوں کا غلبہ قبول نہیں۔ ملک مزید کسی مارشل لا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔یہاں کبھی فوجی اور کبھی عوامی مارشل لا آتے رہے ہیں۔ ملک میں لگنے والے مارشل لاوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں افراتفری، دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری ہے، اب ہمیں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان بنانے میں مشرقی پاکستان کے لوگوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا انہیں دھتکار کر الگ کیا گیا، انہیں گولیاں ماریں، ان کے گھر اجاڑے لیکن یہاں سقوط ڈھاکہ کے مرکزی کردار یحییٰ خان دنیا سے رخصت ہوئے تو انہیں قومی پرچم میں دفن کیا گیا۔ آئین و قانون توڑنے والوں کو یہاں گارڈ آف آنر ملتے ہیں، قومی پرچم میں دفن کیا جاتا ہے اگر اس روش کو برقرار رہنا ہے تو پھر ہمیں سیاست چھوڑ دینی چاہئے۔ قوم کو باہر نکلنا ہو گا یہاں بہنے والی الٹی گنگا کو سیدھا کرنا ہو گا اس کے لئے قوم کے جذبوں کو عمل میں ڈھالنا ہو گا جس طرح پچھلے سال مارچ میں آپ نے انقلاب برپا کیا تھا اور الٹی گنگا سیدھی ہو گئی تھی باقی جو ٹیڑھی رہ گئی اس کو بھی ہم مل کر سیدھا کریں گے۔زردری نے ہمارے جذبہ کا احترام نہیں کیا، زرداری کہتے ہیں کہ عدلیہ انہوں نے بحال کی اور موزوں وقت پر کی حالانکہ وہ نہ کرتے تو 17 کروڑ عوام ان کے سر پر پہنچ جاتے پھر نہ جانے کیا کیا بحال کرنا پڑتا! شکر کریں گوجرانوالہ رُک گئے تھے۔ میں پاکستان کو منجدھار سے نکالنے کا عزم رکھتا ہوں جس دن ہم نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کر لیا تو کوئی ہمارا راستہ نہیں روک سکے گا۔ یہاں انقلاب کی بات کرنے والے پہلے 17ویں ترمیم پر ٹھپہ لگاتے ہیں اور پھر 18ویں ترمیم پر ٹھپہ لگاتے ہیں۔ قوم ایسی پارٹیوں سے پوچھے کہ آپ کا نظریہ کیا ہے! مسلم لیگ (ن) نے ثابت کیا کہ وہ قائداعظمؒ کی وارث جماعت ہے اور اقتدار نہیں، اقدار کی سیاست کر رہی ہے اور کرتی رہے گی، اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ مسلم لیگ ن نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے، پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا سفر شروع ہو گیا تھا ملک کا وقار اتنا بڑھا تھا کہ بھارتی وزیراعظم بس میں آئے اور مینار پاکستان پر پاکستان کو تسلیم کیا، ہم نے عدلیہ کی آزادی کا پرچم اٹھایا اور عدلیہ نے آزادی حاصل کی۔ دس دس مرتبہ وردی میں مشرف کو صدر منتخب کرانے کے نعرے لگانے والے مسلم لیگی نہیں بلکہ مسلم لیگ کے نام پر تہمت ہیں۔ مسلم لیگ ن پر میڈیا پر حملے کرنے والے یہی چودھری پرویزالٰہی اور پرویز مشرف اور ان جیسے دوسرے لوگ ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے کسی پر پتھر نہیں پھینکا، پتھر اسی درخت پر لوگ پھینکتے ہیں جو پھل دیتا ہے۔ ہم کسی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہتے۔ مسلم لیگ ن نے ماضی میں بھی عوام کی تائید سے الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل کی تھی اور مسلم لیگ کو عوام نے طاقت بخشی ہے۔ اب بھی مسلم لیگ ن عام انتخابات میں دوتہائی اکثریت ضرور حاصل کرے گی، ہم نے پہلے بھی یہ معرکہ کسی کا سہارا لئے بغیر مارا تھا اور آئندہ بھی اپنے زور بازو سے مینڈیٹ حاصل کریں گے اور پاکستان کو 21 ویں صدی کا ملک بنائیں گے۔ ہم چند واضح اصولوں کی بنیاد پر مخلوط حکومت تحریری معاہدہ کرکے شامل ہوئے تھے پھر دو مزید معاہدے ہوئے لیکن بدقسمتی سے تینوں معاہدوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ ہم نے وزارتوں کی پرواہ نہیں کی اور ہمارے وزراءکابینہ چھوڑ کر باہر آ گئے۔ صدر آصف زرداری نے ہمارے جذبے اور خلوص کی قدر نہیں کی۔ اگر میثاق جمہوریت پر عمل کیا جاتا تو ان تین سال میں بے شک ملک کی تقدیر نہ بدلتی لیکن پاکستان پٹڑی پر چڑھ گیا ہوتا۔ حالت یہ ہے کہ ملک میں بجلی نہیں، گیس نہیں، نہ صنعتوں کے لئے نہ گھروں اور نہ ہی گاڑیوں کے لئے! کرپٹ لوگوں کو چن چن کر اہم عہدوں پر لگایا جاتا ہے۔ اربوں کھربوں روپے کے نوٹ چھاپ کر گلچھرے اڑائے جاتے ہیں۔ آئیے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباو ڈالیں کہ کشکول توڑ دیا جائے۔ پاکستان کی غیرت مند قوم کو بھیک مانگنے والی قوم بنانا کسی صورت ہمیں گوارا نہیں، اس کشکول کو توڑنا ہو گا اور ہمیشہ کے لئے کشکول ختم کرنا ہو گا۔ قرضے لے کر کارپوریشنوں میں ضائع کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں کسی کیری لوگر بل اور غیرملکی امداد یا بھیک کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے پہلے بھی موٹروے، ہوائی اڈے، گوادر پورٹ، کاغان سے ناران تک سڑک اور پشاور لاہور موٹروے کسی سے بھیک مانگ کر نہیں، اپنے زور بازو سے بنائی تھیں، آج بھی طے کر لیں تو معجزے کر سکتے ہیں اور ہمیں کسی کے پاس جا کر بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں۔ حکومت نااہل ہے، ہر ماہ بجلی، پٹرول، گیس کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے۔ غرباءپر ٹیکس لگانے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے، اس کے ساتھ باہمی تعاون میں اضافہ ہونا چاہئے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاءکا وقت قریب ہے ایسے میں ہمیں دوست افغانستان کی ضرورت ہے اور یہ سب پالیسیاں اس وقت ہو سکتی ہیں کہ ملک میں پائیدار جمہوریت ہو۔ 12 اکتوبر 1999ءکے مشرف کے اقدام سے پاکستان کے 10 سال ضائع ہو گئے۔ 1999ءاور آج کے حالات کا موازنہ کرنا ضروری ہے۔ ہم پھر دوتہائی اکثریت سے آ کر پاکستان کو ایک مرتبہ پھر قائداعظمؒ کا پاکستان بنائیں گے۔ موٹروے، سڑکیں، بندرگاہ، گوادر کو دوبئی بنائیں گے، بڑے ڈیم بنائیں گے، گیس و بجلی کا بحران ختم ہو گا اور بے زمین کسانوں، ہاریوں کو پھر سے زمین ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار کے لالچ میں4 بار آئین کو توڑا گیا جس روز ہم نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کر لیا پھر ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ مجھے پاکستان کے وزیراعظم پر ترس آتا ہے جن کی ملک میں کوئی عزت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگی دھڑے مسلم لیگ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملک کو عیاریوں، لغاریوں سے نجات دلا کر اسے عوام کا پاکستان بنائیں گے۔ انہوں نے مارشل لاءکا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا، بینظیر بھٹو کو جلا وطن اور قتل کیا گیا، مجھے بھی پھانسی چڑھانے کا منصوبہ تھا۔ اس وقت کے ججوں کے دلوں میں خدا کا خوف نہ ہوتا تو مجھے پھانسی کی سزا دی جانی تھی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...