سری نگر (ثناءنیوز) مقبوضہ کشمیر میں 2010ءکا سال انسانی بحرانوں کی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے‘ مظاہرین پر فائرنگ سے ایک سو بارہ ہلاکتیں‘ مہینوں بستیوں کے محاصرے‘ گرفتاریاں اور دوسری زیادتیوں کی شدت واقعی تاریخ ساز تھی۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس ضمن میں تین اہم سوال ہیں جو 2011ءکا استقبال کریں گے۔ پہلا یہ کیا اگلے سال گرما میں تحریک دوبارہ شروع ہو گی؟ دوسرا یہ کہ کیا پاکستان کشمیر میں دوبارہ جاری جدوجہد آزادی کی پشت پناہی کرے گا اور تیسرا سوال یہ کہ کیا بھارتی حکومت کشمیر کے اقتدار سے ان پارٹیوں کو الگ کرے گی جو ٹھوس سیاسی رعایات کا مطالبہ کرتی ہیں؟ پہلے سوال کے بارے میں دو متضاد آراءپائی جاتی ہیں۔ حریت پسند گروپوں اور متاثرین کا ایک بڑا حلقہ اس بات پر بضد ہے کہ آئندہ موسم گرما میں جو تحریک برپا ہو گی وہ 2010ءکے مقابلے شدید تر ہو گی۔ مفتی سعید اور فاروق عبداللہ کی تنظیمیں کشمیر میں خودمختاری کا مطالبہ کرتی ہیں۔ انہیں ایک حد تک عوامی مقبولیت بھی حاصل ہے۔ بھارت اگلے سال سے کوشش کرے گا کہ یہاں خالص ہند نواز سیاست پروان چڑھے۔ اس کے لئے انہیں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کو اقتدار سے دور کرنا ہو گا۔کالم نگار جاوید احمد کے مطابق نوجوانوں نے ایک نعرہ بھی عام کیا ہے خون کا بدلہ جون میں لیں گے‘ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ہزاروں لڑکوں کی گرفتاری اور دوسری زیادتیوں نے ایک اور تحریک کے لئے میدان ہموار کر دیا ہے لیکن اکثر حلقے کہتے ہیں کہ 2010ءکی تحریک نے وہ سب کچھ کر دکھایا جو بندوق کی تحریک نہیں کر پائی تھی۔ شوپیان کے کمپیوٹر انجینئر محمد زمان کہتے ہیں ”بندوق نے مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے‘ موجودہ تحریک نے کشمیریوں کو بھارت کے مقابلے میں اخلاقی برتری دے دی ہے“۔ کشمیر میں پاکستان کے آئندہ کردار پر مبصرین کے بیشتر حلقے کہتے ہیں دراصل بھارت اور پاکستان کے درمیان جو کشیدگی پائی جاتی ہے اس میں مسئلہ کشمیر محض ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخ کے محقق محمد ارشاد کہتے ہیں ”کشمیریوں کو بھی سمجھ آنے لگا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا تشخص بہتر نہیں ہے اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ ان کی تازہ تحریک پر پاکستان کا لیبل چسپاں ہو۔ قابل ذکر ہے کہ حریت پسندوں میں سے سب سے زیادہ پاکستانی سمجھے جانے والے سید علی گیلانی کئی بار یہ بات دہرا چکے ہیں کہ اب کشمیر کی تحریک میں نہ بندوق ہے اور نہ ہی پاکستان کی پشت پناہی۔