جعلی ادویات، عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو کھلی چھٹی کیوں

Dec 31, 2012


عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد ادویات جعلی ہیں جس سے عوام کی صحت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے جعلی ادویات کی تیاری میں ہم دنیا بھر میں 13ویں نمبر پر ہیں۔ جو نہایت شرمناک بات ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں عوامی صحت کے حوالے سے نہایت سخت پالیسیاں بناتی ہیں اور ان پر عمل بھی سختی ہوتا ہے تاکہ کسی ادارے کو عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کی جرات نہ ہو اس کے برعکس پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے یہاں صحت جیسے نازک معاملے میں بھی حکومتی رٹ اور صحت عامہ کے قوانین کو کوئی جعلساز خاطر میں نہیں لاتا اور دھڑلے سے جعلی ادویات کا کاروبار ہو رہا ہے۔ گلیوں اور محلوں میں لوگوں نے فیکٹریاں بنا رکھی ہیں جہاں پر عام بیماریوں سے لے کر کینسر تک کا باعث بننے والی جعلی ادویات تیار ہو رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل امراض قلب کی جعلی دوا کے باعث بھی کئی ہلاکتیں ہوئیں اور اب کھانسی کے شربت سے درجنوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ حکومت پنجاب نے پے در پے ہلاکتوں کے بعد کھانسی کے شربت ڈیکسو میتھاسن اور ٹاٹنو پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا جو پہلے ہوجاناچاہئے تھا۔اب پتہ چلا ہے کہ دونوں ادویات کی تیاری میں بھارتی خام مال استعمال ہوا ہے۔ اب وفاقی حکومت نے بھی ہلاکتوں کے حوالے سے 48 گھنٹوں میں تحقیقاتی رپورٹ طلب کی ہے۔
جعلی ادویات تیار کرنے والے مکروہ عناصر اس قدر بے رحم ہیں کہ جان بچانے والی روزمرہ استعمال کی عام ادویات تک جعلی بنا رہے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ عالمی ادارے کی اس رپورٹ پر سخت ایکشن لے اور جعلی ادویات کے گھناﺅنے کاروبار میں ملوث عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے جو عوام کی صحت اورزندگیوں سے کھیل رہے ہیں ۔جعلی ادویات بنانے والوں کو نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں