ملک کے تین صوبوں میں دہشت گردوں کا راج اورپہلی جمہوری حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل.... شہریوں کو جان و مال کے تحفظ کی ضمانت آخر کب ملے گی؟


ملک کے تین صوبوں خیبر پی کے، بلوچستان اور سندھ میں دہشت گردی، تخریب کاری اور خودکش حملوں کی یکے بعد دیگر ہونے والی وارداتوں میں بے گناہ انسانوں کے قتل عام کا سلسلہ اتوار کے روز بھی جاری رہا۔ اتوار کی صبح بلوچستان کے ضلع مستونگ میں تفتان سے کوئٹہ آنے والی دو مسافر بسوں کے قریب خودکش حملہ آور نے دھماکے سے خود کو اڑا لیا، اس دھماکے میں چار خواتین سمیت 19 مسافر جاں بحق اور 25 زخمی ہو گئے جبکہ ایک بس بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئی، متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ اس سے ایک روز قبل کوئٹہ میں موٹر سائیکل سواروں کی پولیس وین پر فائرنگ سے ایک اے ایس آئی سمیت چار اہلکار جاں بحق ہو گئے جبکہ اسی روز کراچی کینٹ سٹیشن کے باہر ایک مسافر بس میں دھماکے سے سات مسافر جاں بحق اور پچاس زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی اس واردات میں جائے وقوعہ کے قریب کھڑی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی تباہ ہوئیں جبکہ قریبی دکانوں اور عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اسی روز پشاور سے طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے والے ایف سی کے 21 اہلکاروں کو فائرنگ کر کے قتل کرنے کی دلسوز خبر بھی موصول ہوئی جبکہ اتوار کی علی الصبح کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک کھڑی گاڑی میں دھماکے کی اطلاع بھی موصول ہوئی ہے تاہم اس دھماکے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
مشروط مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ ہی کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے پشاور میں ایف سی اہلکاروں کو اغوا اور بےدردی سے قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی جا چکی ہے جبکہ رخصت ہونے والے موجودہ سال کے اس آخری مہینے میں ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کی اکثر وارداتوں اور خودکش حملوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔ 22 دسمبر کو پشاور میں اے این پی کے ایک کارکن کے گھر تقریب کے موقع پر خودکش حملے کی سفاکانہ واردات میں سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور سمیت پانچ افراد شہید ہوئے جبکہ اسی مہینے کے دوران کراچی اور صوبہ خیبر پی کے میں انسدادِ پولیو کی ٹیموں پر فائرنگ کے واقعات میں لیڈی ہیلتھ ورکروں اور دیگر ارکان سمیت آٹھ بے گناہ انسانی جانیں دہشت گردوں کے سفاکانہ عزائم کی بھینٹ چڑھیں۔ اس طرح اس مہینے کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو گا جب انسانی جانوں سے کھیلنے والے دہشت گردوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی ہو۔ کراچی میں تو مسلسل ایک ہفتہ تک دہشت گردوں کا راج رہا ہے جنہوں نے ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میں دو درجن کے قریب بے گناہ انسانوں کو اپنے مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھایا۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے جمعة المبارک اور ہفتے کے روز دہشت گردی کے خطرہ کے پیش نظر کراچی اور خیبر پی کے میں موبائل فون سروس معطل کرائی ۔اس کے باوجود کراچی میں دہشت گردی کی واردات ہو گئی جو حکومتی اتھارٹی کے مقابلہ میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک مضبوط ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ دہشت گردوں کا تو انسانی جانوں سے کھیل کر ملک میں خوف و ہراس کی فضا طاری رکھنے کا اپنا ایجنڈہ ہے جو اپنے انتہا پسندانہ نظریات پر مبنی مجہول سوچ کا بندوق کے زور پرپورے معاشرے میں غلبہ چاہتے ہیں مگر انہیں حکومتی رٹ پر حاوی نہ ہونے دینا اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا تو حکومت اور افواج پاکستان کی بنیادی آئینی ذمہ داریوں میں شامل ہے، اگر سٹیٹ اتھارٹی دہشت گردوں کے ہاتھوں بے بس نظر آئے گی تو پھر ملک میں ان دہشت گردوں کا ہی راج ہو گا۔ جنرل کیانی کو دو سال قبل2010میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں تین سال کی ایکسٹینشن اس لئے دی گئی کہ وہ ” دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردارادا کر رہے ہیں“۔2007سے اب تک پانچ سال سے آرمی چیف کا یہی موقف ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے قومی سوچ اور "Consensus" کی ضرورت ہے لیکن جب آرمی چیف اس جنگ میں اپنے ہی 5000جوان گنوا چکے ہوں تو شاید Consensus نہیں ایکشن کی ضرورت ہے۔
دہشت گردوں، تخریب کاروں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ مافیا اور فرقہ ورانہ کشیدگی کو فروغ دے کر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے والے شرپسند عناصر کے ہاتھوں معاشرہ آج یرغمال بنا نظر آتا ہے۔ عروس البلاد کراچی تو اس پور ے عرصہ میں آگ اور خون میں لپٹا دہشت و وحشت کی علامت بنا رہا ہے اور حکومتی اتحادی مصلحتوں، مفاہمتوں کی پالیسی اختیار کر کے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ سے بے نیاز بیٹھے رہے ہیں ۔آج جس حکومت کی میعاد کے پانچ سال پورے ہونے کا کریڈٹ لیا جا رہا ہے ،آرمی چیف جنرل کیانی کی تین سالہ ایکسٹینشن کے دوسرے سال میںامن و امان کے قیام میں ناکامی اس حکومت کا سب سے بڑا ڈس کریڈٹ ہے جو بے گناہ انسانوں کی جانوں کے ضیاع، صنعت و تجارت کی تباہی اور وسیع پیمانے پر بے روزگاری پر ہی منتج نہیں ہوا، اس سے ملک کی سلامتی کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوئے۔ بار ہا یہ کہاجاتا ہے کہ جب تک پاکستان کے عوام ساتھ نہیں دیں گے،دہشت گردی کو نہیں ختم کرسکتے۔جناب،عوام آپ کے ساتھ ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں اُنہیں اپنا فائدہ نظر آتا ہے لیکن آپ عوام کو اپنی سٹرٹیجی بھی تو بتائیں اب تک عوامی Consensus کی باتیں تو کئی مرتبہ ہوچکی ہیں، لیکن اس Consensus کو پیدا کرنے کیلئے نہ سیاستدانوں اور نہ عسکری قیادت نے کوئی قدم اٹھایا ہے۔سیکرٹری ڈیفنس کے گزشتہ روز کے بیان کے مطابق ”95% “دفاعی پالیسی آرمی، نیوی اورائر فورس کے مشترکہ فیصلوں سے طے کی جاتی ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری افواج اپنے ہی جوانوں کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑنے پر مجبور ہیں؟ پاکستان کی دفاعی صلاحیت جس کیلئے عوام پیٹ کاٹ کر بجٹ فراہم کرتے ہیں،آخر کیوں دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں ناکام ہے؟
آج موجودہ حکومت کا عرصہ اقتدار تو تکمیل پذیر ہے مگر دہشت گردی کا عفریت ملک کے شہریوں کو بدستور اپنے ہدف پر رکھے ہوئے ہے چنانچہ کوئی بعید نہیں کہ آئندہ انتخابات کے مراحل میں دہشت گردی کو مزید فروغ حاصل ہو۔ وزیر داخلہ رحمان ملک اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی دہشت گردی کی وارداتوں میں بیرونی طاقتوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی تو کرتے رہے ہیں مگر انہیں نکیل ڈال کر ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی کبھی مو¿ثر ٹھوس حکمت عملی طے کی گئی نہ اس کا سوچا گیا۔گذشتہ روز ”ایوان وقت“ کے مذاکرہ میں اے این پی کے سیکرٹری جنرل احسان وائیں نے بھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا کہ افغان جنگ کے دوران آنے والا اسلحہ کراچی میں استعمال ہو رہا ہے ۔جب حکومتی کمزوریوں کے نتیجہ میں گھر گھر میں ممنوعہ اور غیر لائسنسی اسلحہ کے ڈھیر لگے ہوں گے اور دہشت گردوں، شرپسندوں اور بھتہ مافیا کے خلاف بے لاگ اپریشن سے بھی گریز کیا جائے گا تو پھر ملک میں امن و امان کیسے قائم ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو درپیش سنگین خطرات و مسائل کا حل ہمارے سامنے موجود ہے، ہمیں اپنے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہوگا۔ حکومتی،اپوزیشن،عسکری، دینی تمام قیادتیں یہ جانتے ہوئے بھی Consensus کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں۔نیک کام میں دیر نہ کی جائے اور پاکستان کے مستقبل کی ضمانت دہشت گردی کے خلافZero Toleranceپالیسی اپنا کر حاصل کی جائے۔
 

ای پیپر دی نیشن