علّامہ طاہر اُلقادری گذشتہ سال پاکستان کے غریبوں کے حق میں ”انقلاب“ لانے کے لئے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے 23 دسمبر کو لاہور میں مینارِ پاکستان کے زیرِ سایہ (بقول اُن کے) لاکھوں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہُوئے سمندر سے خطاب کِیا اور پھر اُسی ٹھاٹھیں مارتے ہُوئے سمندر کو ”لانگ مارچ“ کا نام دے کر اسلام آباد بھی لے گئے۔ 29 دسمبر 2013ءکو طاہر اُلقادری صاحب نے کینیڈا سے ویڈیو لِنک کے ذریعے، لاہور کے مال روڈ (شاہراہِ قائدِاعظم) پر مہنگائی کے خلاف ریلی سے خطاب کرکے ایک بار پھر عوام کو ”انقلاب“ کی نوید دی۔ اِس سے پہلے علّامہ صاحب کے بیٹے ڈاکٹر حسین محی اُلدین نے اُچھل اُچھل کر وفاقی اور پنجاب حکومت کو بُرا بھلا کہا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں، ڈاکٹر حسین محی اُلدین کو ”صاحبزادہ“ کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ مولوی نُور اُلحسن نیّر مرحوم کی ”نُور اُلغات“ کے مطابق ”صاحبزادہ“ ناتجربہ کار نوجوان، نادان اور بے وقوف کو کہتے ہیں، کسی پِیر گدّی نشین اور سجادہ نشین کے بیٹے کو بھی ”صاحبزادہ“ کہا جاتا ہے۔
علّامہ طاہر اُلقادری کے والد صاحب پِیر گدّی نشین یا سجادہ نشین نہیں تھے، اِس لئے علّامہ صاحب اپنے نام کے ساتھ ”صاحبزادہ“ نہیں لکھتے۔ اب چونکہ علّامہ اُلقادری ”شیخ اُلاسلام“ کہلاتے ہیں اِس لئے اُن کے بیٹے کو ”صاحبزادہ“ کہلانے کا پورا حق ہے اور اپنے والد کی طرح ”غُصّہ بقدرِ جُثہ“ کرتے ہُوئے حکومت کو بُرا بھلا کہنے کا بھی۔ علّامہ صاحب کا ”صاحبزادہ“ اگر ”ڈپٹی شیخ اُلاسلام“ بھی کہلائے تو اُسے کون روک سکتا ہے؟ اِس کے لئے کوئی لائسنس تو نہیں لینا پڑتا۔ فروری 2013ءمیں مِصر کے جامعہ الازہر کے مذہبی سکالرز نے جامع کے گرینڈ امام شیخ الطّیب کے نام اپنی درخواست میں لکھا تھا کہ ”طاہر اُلقادری، جامعہ الازہر کا ٹائٹل ”شیخ اُلاسلام“ کو اپنے نام کا حِصّہ بنا کر سیاسی مقاصد حاصل اور لوگوں کو بلیک میل کر رہا ہے“ ابھی اِس درخواست کا فیصلہ نہیں ہُوا۔
گذشتہ سال دسمبر کے مہینے میں علّامہ طاہر اُلقادری نے ”ادارہ منہاج اُلقرآن“ کے چیئرمین کی حیثیت سے ”انقلاب“ کے لئے پاکستان تشریف لائے تھے ”انقلاب“ تو نہیں آیا لیکن علّامہ صاحب نے، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف کی حکومت سے اپنی مُردہ پاکستان عوامی تحریک کو زندہ تسلیم کروا لیا۔ علّامہ صاحب نے اپنی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کو بیک وقت 1934ئ۔ 1936ءمیں چیئرمین ماﺅزے تنگ کی قیادت میں چینی عوام کے لانگ مارچ اور قافلہ¿ حسینؓ سے تشبیہہ دی تھی۔29 دسمبر کی ”صاحبزادہ حسین“ کی قیادت میں ریلی سے خطاب کرتے ہُوئے، علّامہ القادری نے بیک وقت نیلسن منڈیلا کا انقلاب اور قائدِاعظمؒ کا انقلاب لانے کا اعلان کیا۔ 1999ءمیں القادری صاحب نے اپنے ایک عقیدت مند سے ”قائدِ عوام سے قائدِ انقلاب تک“ کے عنوان سے کتاب لِکھوا کر یہ تاثر دِیا تھا کہ ”بھٹو صاحب نے جو انقلاب ادھورا چھوڑ دیا تھا، اُسے مَیں مکمل کروں گا۔“ القادری صاحب حضرت موسیٰؑ اور حضرت یوسف ؑ کا انقلاب بھی لانے کا اعلان کر چکے ہیں۔
دروغ بر گردنِ راوی کہ مال روڈ پر مہنگائی کے خلاف ریلی میں ایک مُعمر عورت ”صاحبزادہ حسن“ کی تقریر سے بہت متاثر ہوئی اور اُس نے کہا ”وے پُترا! وے صاحبزادیا، وے جیوُن جوگیا، مَینوں وی پنجاہ روپیّے دا انقلاب دے دے!“ مزید دروغ برگردنِ راوی کہ ”صاحبزادہ“ نے معمر عورت سے پچاس روپے لے لئے اور کہا ”امّاں فِکر نہ کریں۔ انقلاب آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔“ 2012ءکے جلسہ¿ عام میں علّامہ طاہر اُلقادری نے کہا تھا کہ ”پاکستان کے ہر کونے سے لوگ میری تقریر سُننے کے لئے اپنے مکان، کاریں، موٹر سائیکل، سکوٹر اور عورتیں اپنے زیورات فروخت کر کے آئی ہیں۔“ اِس بار علّامہ صاحب نے اپنے معقدین کو امتحان میں نہیں ڈالا، خود بھی کینیڈا، پاکستان، کینیڈا کے سفری اخراجات سے بچ گئے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے علّامہ طاہر القادری کو جھُوٹ کا سوداگر“ اور ”کنٹینر بابا“ کہہ کر عِزّت دینے کی کوشش کی ہے ”سوداگر“ تو "Tradesman" یا "Trader" یعنی تاجر کو کہتے ہیں۔ طاہر القادری صاحب تو مجمع لگا کر جھوٹ فروخت کرنے والے (نہ جانے کِس کے) ایجنٹ ہیں۔
جہاں تک دسمبر 2012ءمیں اُن کے زیرِ استعمال رہے۔ بُلٹ پروف کنٹینر کا تعلق ہے۔24 فروری 2012ءکو برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد وکلاءکی تنظیم "Association of Pakistan's Lawers" (اے پی ایل) کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک نے برطانیہ میں رفاہی اداروں کی نگرانی کے لئے قائم کئے گئے "Charity Commission" کو علّامہ طاہر القادری کی سربراہی میں چلنے والے اداروں ”منہاج اُلقرآن انٹڑنیشنل“ اور ”منہاج اُلقرآن ویلفئر انٹرنیشنل“ کے خلاف درخواست دی تھی کہ دونوں اداروں نے خیراتی کاموں کے لئے وصول کی گئی رقم میں سے 69 ہزار ڈالر سے علّامہ القادری کے لئے بُلٹ پروف لینڈ کروزر خریدی تھی، جو امانت میں خیانت ہے“ یہ بلٹ پروف کنٹینر کہاں ہے؟ بھلا ”انقلاب“ لانے تک علّامہ القادری کسی کو کیوں بتائیں؟ پرویز رشید بگاڑ لیں جو بگاڑ سکتے ہیں! مرزا غالب نے کہا تھا
بہت شور سُنتے تھے، پہلو میں دِل کا
جو چیرا تو، اِک قطرہ خُوں نہ نِکلا“
علّامہ طاہر اُلقادری نے بھی یہی کہا ہے کہ ”میرے انقلاب میں ایک بھی خون کا قطرہ نہیں بہے گا۔“ اگر ایسا ہوتا تو موصوف اپنے صاحبزادے ” ڈپٹی شیخ اُلاسلام کو پاکستان کیوں بھیجتے؟ القادری صاحب نے 14 سے 17 جنوری تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر لانگ مارچ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہُوئے صدر زرداری، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف اور حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کو ”یزیدِیو! بے شرمو! بے غیرتو! اور بزدلو!“ کہہ کر مخاطب کِیا تھا لیکن اِس بار اپنے خطاب میں میڈیا کے لوگوں اور تجزیہ کاروں کو اندھو! کہہ کر خطاب کیا اور کہا ”اندھو! تمہیں پاکستان عوامی تحریک کی ریلی میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہُوا سمندر دکھائی نہیں دیتا؟“
سابق جج سپریم کورٹ جناب طارق محمود نے فروری 2012ءمیں ہی ایک نیوز چینل پر بتایا تھا کہ منہاج اُلقرآن فاﺅنڈیشن کے 11 ڈائریکٹرز ہیں۔ 8 علّامہ طاہر القادری سمیت اُن کے خاندان کے لوگ ہیں اور باقی 3 بھی علّامہ صاحب کے نامزد کردہ۔ تو صاحبو! علّامہ طاہر القادری اور ”صاحبزادہ حسین“ سمیت اُن کے خاندان کا انقلاب تو آ گیا۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ علّامہ طاہر اُلقادری اور اُن کے صاحبزادے کینیڈا سے پاکستان میں انقلاب کے لئے کِس قسم کے "Parts" درآمد یا سمگل کر رہے ہیں۔ اُس سے پہلے علامہ طاہر القادری ویڈیو لِنک یا ویڈیو گیم کے ذریعے انقلاب لے آئیں تو یہ اُن کی کرامت ہے۔