آجکل باپ بیٹا بہت سیاسی فارم میں ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی تقریریں آجکل مجھے اچھی لگ رہی ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی سیاست نوازشریف کو سمجھ میں نہ آئے گی مگر وہ بھی ’’بے سمجھی‘‘ وزیراعظم بن جائے گا۔ کہتے ہیں یہ بھی صدر زرداری کی چال ہے کہ اگلی باری صدر زرداری کی۔ بلاول تو وزیراعظم بنے گا۔ اس کے بعد باری مریم نوازشریف کی ہے اور صدر نوازشریف ہوں گے۔ مگر بلاول کیسے وزیراعظم بنے گا۔ وہ تو آجکل ’’وزیر اعظمیاں‘‘ بانٹتا پھرتا ہے اور سیاسی حریفوں کو ڈانٹتا پھرتا ہے۔ سندھی ثقافتی اور پتنگ بازی کے میلے کے لئے سٹیج پر چلتے پھرتے اس کی تقریر اور بختاور کی تقریر بہت زبردست تھی۔ سیاست کاری کو اداکاری بنا دیا گیا تھا اُس کی یہ بات میرے کالم کا موضوع بن گئی کہ پرائیویٹائزیشن کو پرسنلائزیشن بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ جنرل مشرف کا زوال شوکت عزیز کی طرف سے کراچی سٹیل مل کی پرائیویٹائزیشن سے سپریم کورٹ نے شروع کیا تھا۔
اب جو اُس نے شہید بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی پر تقریر کی تو کمال کر دیا۔ ایک تو اُس نے مخالفوں کا منہ بند کر دیا اور ایک گھنٹے سے زیادہ روانی اور جذبے کی فراوانی سے اردو بول کر دکھا دی۔ یہ اعتراض بے کار ہے کہ نیوز ریڈر کی طرح کچھ بلاول کے سامنے تھا جسے اس نے پڑھ کر تقریر کی۔ کس حکمران نے پڑھ کر تقریر نہیں کی۔ نوازشریف کے ہاتھ میں صدر اوبامہ سے ملاقات کے دوران کاغذ کی پرچیاں تھیں۔ بہرحال ’’خبریں‘‘ تو سب تک پہنچ گئیں۔ بزدل خان کے الفاظ تو اس نے پہلے سے کہے ہوئے ہیں۔
بات صدر زرداری کے بلے کی بھی ہے۔ حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ یہ اشارہ ’’میائوں‘‘ کی طرف ہے۔ بلہ تو میائوں ہی کرتا ہے شیر دھاڑتا ہے۔ شیر دھاڑ رہا ہو گا۔ عوام دھاڑیں مار رہے ہیں۔ لیکن پہلے بات وزیراعظم کی مگر وزیراعظم تو نوازشریف ہیں۔ اور بلاول دھڑلے سے کہہ رہا ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم کسی مسیحی کو ہونا چاہئے۔ مسیحی پاکستانی ہیں۔ ایک چیف جسٹس پاکستان بھی مسیحی تھے۔ جسٹس اے آر کارنیلس۔ ان جیسا چیف جسٹس کوئی نہیں آیا۔ وہ فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں فوت ہوئے۔ فلیٹیز ہوٹل کا فخر ہے کہ یہاں قائداعظمؒ بھی ٹھہرے تھے۔ بھٹو بھی ٹھہرتا تھا جسٹس کارنیلس کے پاس اپنا گھر نہیں تھا۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے بیرون ملک علاج کے لئے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ مسیحی بھائیوں کو جسٹس کارنیلس کی یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے کہا میں آئینی مسلمان ہوں۔ پاک فضائیہ کے گروپ کیپٹن 65ء کی پاکستان بھارت کی جنگ ستمبر کے ہیرو سسل چودھری مسیحی تھے۔ انہیں حکومت پاکستان نے ستارۂ جرات دیا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ یونینسٹ پارٹی کے مقابلے میں دو مسیحی ممبران اسمبلی کے ووٹوں سے برابر ہوئے تھے۔ سپیکر کے کاسٹنگ ووٹ سے جیتے تھے اور سپیکر بھی ایک مسیحی تھے۔ تو بلاول کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں آنا چاہئے تھا۔ نوازشریف نے ایک کرسمس تقریب میں شرکت کی۔ ایوان صدر میں بھی ایک تقریب یوم قائداعظمؒ کے علاوہ کرسمس کے حوالے سے بھی منعقد ہوئی تھی۔ برادرم پرویز رشید بھی موجود تھے۔
بلاول نے ملالہ یوسف زئی کے لئے بھی وزیراعظم بننے کی خبر کا استقبال کیا تھا۔ پہلے تو وہ بتائے کہ اس کے ارادے کیا ہیں۔ اگر وہ اتنا ہی بے نیاز ہے تو آصفہ بھٹو زرداری کے لئے یہ منصب چھوڑ دے۔ مگر آجکل بختاور اس کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے اور آصفہ نہیں ہوتی۔ شہید بے نظیر بھٹو کی قبر پر سب گھر والے موجود تھے۔ آصفہ آصف صاحب کے ساتھ تھی۔ یہ نام بے نظیر بھٹو نے رکھا تھا کہ وہ پیدا ہوئی تو آصف صاحب جیل میں تھے۔ وزیراعظم بلاول کے آس پاس وہی لوگ ہوں گے جو ’’صدر‘‘ زرداری کے اردگرد تھے۔ جو آجکل وزیراعظم نوازشریف کے اردگرد ہیں۔ بلاول جوانوں اور نئے لوگوں کو ساتھ لے کر چلے۔ عمران خان والا اپنے ساتھ نہ کرے۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز کیلئے بھی یہی تجویز ہے۔
یہ تو بتایا جائے کہ جن جیالوں نے عمرانیوں کے ساتھ لڑائی کی ہے۔ یہ مناسب تھا؟ عجیب بات ہے کہ دونوں طرف سے اُن ڈنڈوں کے ساتھ ایک دوسرے کی پٹائی کی گئی جن کے اوپر پاکستانی پرچم اور پارٹی پرچم لہرا رہے تھے۔ پرچموں کا یہ سیاسی استعمال بلکہ ’’پارٹی استعمال‘‘ خوب ہے؟ اس کا سارا ’’کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ‘‘ بلاول کو گیا ہے۔ سکیورٹی کے نام پر راستے بند کرنے کا کیا جواز ہے؟ اس کے بعد ’’بیان بازی اور جملے بازی‘‘ کو انجوائے کیا گیا ہے مگر اچھا نہیں سمجھا گیا۔ سیاستدان اور ورکرز ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں تو لوگ خوش ہوتے ہیں۔ الزام ایک ہی جو دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ دونوں ٹھیک ہیں۔ سیاستدان اور اُن کے لوٹے اور ٹوٹے ایک جیسے ہیں۔ اس موقعے پر آصفہ زرداری کا فیس بُک پر پیغام پسند آیا۔ ’’جیالے گالیاں نہ دیں۔ فحش الفاظ استعمال نہ کریں۔ یہ مہذب لوگوں کا شیوہ نہیں ہے‘‘
لوٹوں کے حوالے سے بلاول کا بیان دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ ’’چار لوٹوں میں پانی بھر لیا جائے تو اُسے سونامی نہیں کہتے؟‘‘ لوگ ان لوٹوں کے لئے تحقیق کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، جہانگیر ترین اور… اور کچھ لوگ جاوید ہاشمی کا نام بھی لے رہے ہیں۔ میں اِسے مناسب نہیں سمجھتا۔ اور بھی بہت لوگ ہیں۔ مجھے دکھ ہوا کہ تحریک انصاف کا ایک لوٹا سیاستدان کہہ رہا تھا۔ تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی ایسے ہی ہیں جیسے ممنون حسین پاکستان کے صدر ہیں۔ لوٹے کئی پارٹیوں سرکاری پارٹی مسلم لیگ ن میں بھی ہیں امیر مقام ماروی میمن طارق عظیم اور چوتھا؟ کئی چوتھے ہیں۔ مشرف کے وزیر اور اب نوازشریف کے وزیر وغیرہ وغیرہ۔
مگر بلاول کے وار عمران خان پر بہت رواں ہیں بلکہ رواں دواں ہیں۔ انہوں نے نوازشریف کو بھی سُنا دیں۔ اس کے لئے افتخار احمد کا تجزیہ مناسب ہے۔ ’’تیر اور شیر مل کر دہشت گردوں کا شکار کریں گے‘‘۔ مگر دونوں کی نظر ایک دوسرے پر بھی ہے۔ شکار کرنے والے خود بھی شکار ہو سکتے ہیں۔ تیر اور شیر میں ایک نقطے کا فرق ہے۔ تیر کو ایک نقطہ بڑھانا ہے۔ شیر کو ایک نقطہ گھٹانا ہے۔ یہ کام پاکستانی سیاست میں لگا رہتا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ باریاں مقرر ہیں۔ اب سمجھ میں آیا کہ بلاول کا ہدف عمران خان کیوں ہے؟ بلاول نوازشریف کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے مگر اس طرح نہیں جانتا جس طرح اس کے والد ’’صدر‘‘ زرداری ’’جانتے‘‘ ہیں۔ نوازشریف بھی بہت کچھ ’’جانتے‘‘ ہیں۔ مگر جب بلاول نے نظم پڑھی جو بے نظیر بھٹو بھی پڑھتی تھی۔ ’’میں باغی ہوں میں باغی ہوں اس دور کے رسم رواجوں سے۔ ان تختوں سے ان تاچوں سے۔ جو ظلم کی کوکھ سے جمتے ہیں۔ انسانی خون سے پلتے ہیں۔ جو نفرت کی بنیادیں ہیں۔ خونی کھیت کی کھادیں ہیں۔ ان چوروں کے سرداروں سے۔ انصاف کے پہرے داروں سے۔ میں باغی ہوں میں باغی ہوں‘‘۔ یہ نظم میرے دوست شاعر ڈاکٹر خالد جاوید جان نے لکھی ہے۔ بلاول سے گزارش ہے کہ باغی ہونے کے لئے پہلے اپنے آپ سے بغاوت کرنا ضروری ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری نے بلہ جنرل مشرف کو کہا ہے۔ اس کے پردے میں پاک فوج کے لئے پیغام ہے۔ مگر یہ پیغام نوازشریف کے لئے بھی ہے۔ اس پیغام سے ’’فائدہ‘‘ کس کو ہو گا؟ یہ بلہ وہ ہے جسے گارڈ آف آنر پیش کر کے پاکستان سے بھیجا گیا تھا۔ مگر یہ بھی لوگوں کو پتہ ہے کہ ’’باگڑ بلہ‘‘ کون ہے؟ میرے قبیلے کا سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی کہتا تھا کہ ’’جنگل میں بلی اتنی ڈری کہ شیر بن گئی‘‘۔ اب بھی بلی کو شیر کی خالہ کہتے ہیں۔ سیاست بلکہ جمہوریت کے جنگل میں باگڑ بلہ بھی چنگھاڑتا پھرتا ہے۔ بلے موج میں بھی ہیں اور سیاست کے چنگل میں بھی ہیں۔ اب اپوزیشن اور پوزیشن میں فرق مٹ گیا ہے۔ عمران کو خیبر پی کے میں زرداری اور بلاول کو سندھ میں پروٹوکول اور سکیورٹی حاصل ہے۔ اپوزیشن اور پوزیشن دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔ ’’چُپڑیاں‘‘ تے نالے دو دو۔