ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ کیلئے شدت پسند ٹاؤن ہال میں جمع ہوئے تھے: انکوائری رپورٹ

اسلام آباد (ثناء نیوز) ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنے کے واقعہ کی انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ محسود قبائل کے بیس سے پچیس شدت پسندوں نے پنجابی شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد، ازبک اور دیگر حمائتیوں کی مدد سے ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر حملہ کیا تھا۔ یہ لوگ شمالی وزیرستان میں اپنے ٹھکانوں سے جیل کی عمارت سے کچھ فاصلے پر واقع ٹاؤن ہال میں رات ساڑھے آٹھ بجے اکٹھے ہوئے، شدت پسندوں نے آسانی کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس حملے کا مؤثر جواب دینے سے ڈی موبیلائز کر دیا، 253 قیدیوں کو آزاد کرایا اور انہیں اپنے ہمراہ لے کر اپنے قبائلی پناہ گاہوں میں واپس لوٹ گئے، اکیس صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ کے مطابق یہ حملہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر اس سال گرمیوں میں 29 جولائی اور 30 جولائی کی درمیانی رات ہوا تھا۔ رپورٹ کے مطابق تین گھنٹے بعد ہی شدت پسندوں کی سات ٹیمیں جیل کے اردگرد دس مختلف مقامات پر سڑکوں اور چھتوں پر اپنی پوزیشن لے چکی تھیں۔ ایسا انہوں نے سکیورٹی اہلکاروں اور ان کی متوقع کمک کی نقل و حرکت کو روکنے کے لئے کیا تھا، انہوں نے علاقے کو مکمل طور پر سیل کر کے شہر کے مشرقی اور مغربی کناروں سے رسائی کو مسدود کر دیا تھا۔ رپورٹ میں درج ہے کہ اس کے بعد دھماکوں اور فائرنگ کے ایک حیرت انگیز سلسلے نے سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو خوف اور الجھن میں مبتلا کر دیا تھا۔ جیل تک رسائی کے تمام راستوں کو بند کر دینے کے بعد شدت پسندوں نے اس کے گیٹ پر راکٹ سے چلنے والے گرنیڈ فائر کئے، پہلے سے طے شدہ طریقے کے مطابق انہوں نے بیرکس اور سیل کو توڑا اور انہیں کھول کر 253 قیدیوں کو آزاد کروا لیا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ان شدت پسندوں نے ایک اقلیتی فرقے کے چار قیدیوں کی شناخت کرنے کے بعد ان کو پھانسی دے دی۔ رپورٹ میں حوالہ دیا گیا ہے کہ تقریباً پچیس منٹ کے اندر ایک شدت پسند نے پولیس کی وائرلیس فریکوئنسی پر ہی پولیس کو سخت الفاظ میں شہر کو مسمار کر دینے کی دھمکی دی۔ انکوائری کمیٹی کے نتائج کے مطابق جیل کے اندر یہ پوری کارروائی پینتالیس منٹ سے زیادہ وقت تک جاری نہیں رہی تاہم جیل کے اردگرد سڑکوں اور چھتوں پر اپنی چوکیوں پر شدت پسند لگ بھگ دو گھنٹے تک موجود رہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...