اسلام آباد (عترت جعفری) 2014ء کے دوران پاکستان کی معیشت کے لئے کچھ اچھی چیزیں بھی ہوئیں تاہم اس کے دامن سے بعض ایسے حوادث بھی سامنے آئے جن کے اثرات مالی سال کے باقی مہینوں میں بھی جاری رہیں گے۔ 2014ء کے دوران پاکستان نے اور آئی ایم ایف کے درمیان ادائیگی کے توازن کو بہتر بنانے کے لئے جاری پروگرام ٹریک پر رہا۔ ملک کی سٹاک مارکیٹ کے حجم میں 6 ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ سرمایہ کاروں کو 25فی صد تک منافع بھی ملا۔ افراطِ زر کی شرح سال کے کچھ مہینوں میں کنٹرول سے باہر جاتی نظرآئی تاہم اکتوبر کے بعد سے اس میں تنزل شروع ہوا جو دسمبر میں بھی جاری رہا۔ ملک کے اندر تیل کے نرخ زیادہ تر مستحکم رہے حکومت نے متعدد مہینوں میں عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ بڑھانے کے باوجود قیمتوں کو نہیں بڑھایا اور سبسڈی دی جبکہ کیلنڈر سال کے آخری مہینے ہی میں تیل کے نرخوں میں کمی کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کی حکومت نے دسمبر میں بھی توانائی منصوبوں پر توجہ مرکوز رکھی اور بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لئے درمیانی اور طویل المعیاد منصوبوں جن کی تکمیل 2016ء سے 2021ء کے درمیان ہو گی، منصوبہ بندی یا تعمیر کے مراحل میں داخل ہورہے ہیں۔ 2014ء بعض ایسے واقعات یا حادثات رونما ہوئے جن کی وجہ سے ملک کی معیشت دبائو سے نہیں نکل سکی۔ دہشت گردی امن وامان کی صورتحال کے ابتر رہنے کی وجہ سے ملک کے اندر نجی غیرملکی یا ملکی سرمایہ کاری کی شرح بے حد کم رہی۔ سرمایہ کاری بورڈ جو براہِ راست ذمہ دار ادارہ ہے نمایاں پیشرفت نہیں دکھا سکا۔ سردیوں میں بھی 6 سے 8 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری جبکہ گیس کے سیکٹر میں جی این جی کو بلاامتیاز بند کرنے کے باوجود گھریلو صارفین کی ضروریات کو بھی پورا نہیں کیا جا سکا۔ سی این جی سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا جبکہ باقی صنعتی سیکٹر کو ضروریات کے مطابق گیس نہ دی جا سکی۔ نجکاری کے پروگرام میں کوئی تیزی نہ آسکی۔ او جی ڈی سی ایل کے شیئرز کی فروخت کا کام کا آغاز کیا گیا۔ اس کے لئے غیرملکی دورے روڈشوز اورباقی پورا عمل مکمل کرنے کے بعد یہ کہا کہ اسے روگا گیا ہے حالات اچھے نہیں تاہم اے بی ایل کے شیئرز کا میابی سے فروخت کئے گئے۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے مسئلہ میں اتصالات سے800 ملین ڈالر سے زائد رقم وصول نہ کی جا سکی۔