یو این او کا ادارہ UNDP دنیا پور کے 188 ممالک کے بارے میں ترقیاتی پروگراموں کا جائزہ پیش کرتا رہتا ہے۔ معروف پاکستانی ماہر معیشت محبوب الحق مرحوم کا تشکیل کردہ یہ ادارہ یونائیڈینشن کا معتبر تحقیقی ونگ ہے۔ اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اس نے رونگٹے کھڑے کر دینے والے اعداد و شمار پیش کئے ہیں ان اعداد و شمار کو دیکھ کر بحیثیت پاکستانی رونا اس بات پر آتا ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے مقامی جائزہ مشنوں پلڈاٹ وغیرہ نے حالات کی جو تصویر کشی کی تھی اس میں روز افزوں معاشی انحطاط کو سرے سے ہی نظرانداز کرکے صرف مقامی سیاسی سابقت کی شعبدہ بازی پر مبنی سب اچھا ہے کا ڈھنڈورا اس بھونڈے انداز میں پیٹا گیا کے مقامی میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اور اسکے ساتھ منسلک دانشور سر پیٹ کر رہ گئے۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ سارا سبق سراسر مالش اور خوشامد کا سیاسی سرمہ تھا۔ مگر مقبولیت کا سرمہ آنکھوں میں تبھی شایان شان لگتا ہے جب صحت بھی اچھی ہو تپ زرو کے مریض کا میک اپ کرکے اسے حسین و جمیل کا خطاب دے بھی دیں تو تمازت آفتاب سے اس کا اصل حلیہ سامنے آتے دیر نہیں لگتی۔ سو میک اپ زدہ خوبصورت چہرہ مذکورہ عالمی ادارے نے دھو سنوار کر پیش کر دیا ہے۔
شوق آرائش میں پہلے کر لیا تبدیل سا
چہرہ پھر وہ خوبصورت بعد میں دھویا بہت
مذکورہ رپورٹ سے پہلی ضرب تو یہ لگی کہ 188 کی فہرست میں پاکستان کا نمبر147 سے ایک درجہ اور زیادہ ہو گیا میر عالم کے بیٹے کی طرح جو کلاس میں آخری نمبر پر گیا تو خاوند نے بیوی کو چونکا کر کہا بیٹا اگلے امتحان کے بعد گھر واپس آجائیگا۔ ظاہر ہے 148 ویں نمبر کا کریڈٹ تو موجودہ حکومت کو ہی جاتا ہے۔ اب اگلے سال کیا حال بنتا ہے یہ تو خدا جانے مگر وزیر خزانہ کے دعوے سربہ سر میں نے مانوں والے لگتے ہیں۔ انسانوں پر خرچ کرنا عوامی حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے یہ نعرہ بھی خیبر پی کے حکومت نے اچک رکھا ہے پنجاب میں میٹرو‘ اورنج‘ موٹروے کے چرچے ہیں۔
جائزہ رپورٹ میں متذکرہ دوسری حقیقت اس انکشاف پر مبنی ہے کہ سرمایہ کاری‘ اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ ملازمتوں کے تمام امکانات بھی اشرافیہ کے گرد گھومتے ہیں یعنی پہلے سے موجود مراعات یافتہ طبقے نے خوشحالی اور کامرانی پر پنجے اس مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں کہ وسائل نچلی سطح پر منتقل نہیں ہو سکتے۔ اب ان حالات میں میرٹ‘ معاشرتی اور معاشی انسان‘ قانون کی بالادستی اور دیگر سیاسی جمہوری اقدار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے شاید یہ نصابی اور کتابی باتیں دنیا کو دکھانے کے لئے ہیں۔ تیسری دنیا‘ قبائلی نظام اور جنگل میں جس مار دھاڑ اور دھونس دھاندلی کا سماں دیکھنے میں آتا ہے شاید اسی کا نام پاور پالیٹکس ہے۔
پاک سرزمین شاد باد کی بازگشت اور اسلامی جمہوری آئین شاید عوام کی نصف تعداد کی نمائندہ ہے۔ باقی سارے تو شادباد کے بجائے بے مراد ہیں غربت کی لکیر کے نیچے! قہر خدا آٹھ کروڑ اسی لاکھ تو UNDP کہتا ہے حقیقت کا اندازہ تو مردم شماری سے ہی ممکن ہے۔ نصف آبادی صحت تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم ہے۔ 15 سال تک کے جوان بے روزگار ہیں۔ اب یہ لشکر جرار دہشتگردی اور دیگر سماجی برائیوں جرائم کی طرف مائل نہ ہو گا تو کیا مناجات پڑھائے گا! 15 سال سے کم عمر بچوں کا تو ذکر ہی اس کہانی میں نہیں جو بے چارے قسمت کے مارے سکول کا منہ دیکھنے سے محروم زندگی کی بے رحم لہروں پر بہے چلے جا رہے ہیں۔ یہ صورت حال ہمارے معاشرے کے اجتماعی انحطاط کی عکاسی ہے مصیبت پھر مصیبت ہے کہ رول ماڈل کے طور پر کوئی زندہ مثال ہی میسر نہیں ہر طرف کرپشن‘ بددیانتی اور لاقانونیت کے لات منات کھڑے ہیں۔
اس جائزہ میں پاکستان کے محدود وسائل اور غلط ترجیحات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے منصوبہ بندی میں ناکامی کے سبب تھوڑے بہت میسر وسائل بھی کرپشن اور اقربا پروری کے سبب فلاح کا اہتمام نہیں کر سکے اس رپورٹ میں نااہلیت اور غلط منصوبہ بندی کا جو سمندر کوزے میں بند کیا گیا ہے اسکی تفصیلات پر پاکستانی صاحب بصیرت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ابھی اس رپورٹ میں غریب ملک کے امیر حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کی کوئی تفصیل موجود نہیں ابھی یہ جائزہ رپورٹ زیر غور ہی تھی کہ مودی صاحب بھونچال کی طرح آدھمکے بھارتی میڈیا کی غیر محسوس ثقافتی یلغار ہی کیا کم تھی کہ تعصب اور بربریت کے علم بردار بھارتی سورما نے دھڑام قلابازی لگا کر سب کو چونکا دیا۔
شاید ہیرو کو سمجھ آگئی کہ بھارت لاکھ سر ٹکرا لے وسط ایشیا تک … کا خواب پاکستان کے بغیر کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ اب اس کمزوری کو چھپانے کیلئے جارحانہ اداؤں کا ڈرامہ ضروری ہے یہ باور کرانے کیلئے کہ ہماری مرضی اور موج کے بغیر جنوبی ایشیا میں پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ ہم ہیں ہیرو! اصلی ہیرو! باقی سب ہیں ثانوی کردار‘ مانا آپ شیر ہیں! جنگل کے بادشاہ! مگر جناب گیدڑوں لومڑوں والی جمناسٹک تو آپکے شایان نہیں۔ پاک بھارت دوستی چھجو کے چوبارے والی سونگھا سونگھائی اور مشک بازی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ خدشات‘ شکوک اور بداعتمادی کا بنیادی تقاضا ہی یہی ہے کہ جو کچھ ہو سرعام کھل کھلا کے شفاف انداز میں ہو! کسی رابطے تفہیم یا انڈر سٹینڈنگ میں سے سازش کی بو نہیں آنی چاہئے۔ یہ جو ہر ملاقات کے بعد خفیہ ڈیل اور کاروباری ذاتی ایجنڈہ کے الزامات لگ جاتے ہیں اس صورت حال کا توڑ ہی یہ ہے کہ اچھنبے چاہت کی حیران کن ایکٹنگ سے باز رہا جائے۔ جو کچھ ہو طے شدہ پروگرام کے تحت ہو! رفع یدین کے تحت تاکہ بغلوں کے بت گر جائیں اور منافقت دم توڑ جائے۔ ہاں اگر عالمی سازشوں کا عذر ہے تو پہلے نیت کا فتور چھوڑیں اور سب کو بتا دیں کہ ہمسائیگی کا کوئی نعم البدل نہیں! اب پڑوسیوں نے امن سے رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے بغیر کچھ فائدہ نہیں!