نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں مسئلہ کشمیر پر گول میز کانفرنس کی بازگشت بہت دور تک سنائی دی گئی۔ ممتاز مفکر‘ شاعر اور کشمیری رہنما ڈاکٹر مقصود جعفری کی بلائی ہوئی اس کانفرنس میں اہل دانش و بصیرت ‘ صحافی ‘ ادیب ‘کالم نگار‘ قانون دان اور کشمیری نمائندوں سمیت ہر طبقہ فکر کے افراد موجود تھے ۔ مسئلہ کشمیر کے تمام پہلوؤں پر کھل کر باتیں ہوئیں۔ مہمان خصوصی سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم تھے جبکہ صدارت وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کی۔ اس کانفرنس کی خصوصیت یہ تھی کہ اسکے کلیدی اور اہم مقررین بلکہ منتظمین کا قلبی‘ فکری اور قلمی تعلق نوائے وقت کے ساتھ ہونے کے سبب پس منظر میں سالار جمہوریت و صحافت مجید نظامی مرحوم کے افکار کی بازگشت بھی سنائی دے رہی تھی۔ کانفرنس کے میزبان ڈاکٹر مقصود جعفری سمیت بیرسٹر افضل حسین‘ سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم‘ راقم الحروف ‘ آفتاب ضیاء اور طلعت عباس ایڈووکیٹ بھی نوائے وقت کے کالم نگارہیں ‘ جن کے افکار و تصورات کے باطن میں مسئلہ کشمیر جملہ فطری جہتوں کیساتھ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام مقررین نے مسئلہ کشمیر کے ماضی و حال کا بخوبی تجزیہ کرتے ہوئے اسکے منطقی حل کی ضرورت پر زور دیا۔ کانفرنس کے آغاز پر میزبان ڈاکٹر مقصود جعفری کا تحریر کردہ ایجنڈا شرکاء کو پیش کیا گیا ‘ جو بلاشبہ انکے اعجاز قلم کا شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ایک اہم یادداشت بھی تھی۔ کانفرنس کا آغاز ڈاکٹر مقصود جعفری کے پرجوش خطاب سے ہوا اور پھر پہلے مقرر جسٹس علی نواز چوہان نے اپنی فکر انگیز گفتگو سے سماں باندھ دیا۔ انہوں نے تاریخ کے جھروکوں سے مسئلہ کشمیر کے تمام نشیب و فراز کو سمیٹ کر رکھ دیا۔ ریڈ کلف ایوارڈ اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن سمیت پنڈت جواہر لعل نہرو کی کشمیر کے حوالے سے ریشہ دوانیوں کا کمال مہارت سے پردہ چاک کیا‘ جس پر شرکاء نے انکو کھل کر داد دی۔ سینئر سفارت کار اور دانشور اکرم ذکی کا کہنا تھا مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب پیشرفت کرتے ہوئے زمینی حقائق اور موجودہ حالات کا پورا ادراک کرنا ہوگا ۔ مذاکرات سے کبھی پہلو تہی نہیں کرنی چاہیئے اور قدم پھونک پھونک کر رکھنے ہونگے۔ سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم جو کانفرنس کے مہمان خصوصی بھی تھے نے انتہائی پرُ تاثیر خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا مسئلہ کشمیر جن تاریخی غلطیوں سے پیدا ہوا‘ ان حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ضرور آگے کی طرف دیکھنا چاہیئے لیکن پیچھے مڑ کر تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے درس عبرت حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ کشمیر پر اصولی مؤقف سے اک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا اور میاں نواز شریف کی حکومت مسئلہ کشمیر پر پیش رفت کرنے میں بہت سنجیدہ اور فعال ہے۔ کشمیری رہنما یوسف نسیم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت لاکھ مذاکرات کر لیں‘ جب تک کشمیری نمائندوں کو بات چیت میں شامل نہیں کرینگے‘ یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ مذاکرات کریں مگر کشمیریوں کو فراموش نہ کریں۔ پاکستان کی قربانیاں بھی ناقابل فراموش ہیں مگر کشمیری عوام تو نسلوں سے شہادتوں کی تاریخ رقم کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کو کسی صورت بھی الگ نہیں کرنا چاہیئے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اور کالم نگار ڈاکٹر مظہر قیوم نے اظہار خیال کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ حریت کانفرنس کو مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں حصہ لیکر وہاں اقتدار میں آنا چاہیئے۔ اس حکمت عملی سے بھی بھارت کی رعونت کو خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔ انکی اس تجویز کو کانفرنس میں شریک کشمیری نمائندوں نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ بھارت کسی بھی صورت حریت کانفرنس کو انتخابی فتح سے ہمکنار نہیں ہونے دیگا۔ پھر یہ تجویز کشمیریوں کے اصولی مؤقف سے متصادم ہے کہ وادی کے انتخابات حق خود ارادیت یا رائے شماری کے متبادل نہیں ہو سکتے۔ کانفرنس کے شرکاء کا خیال تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد بھی جمہوری تھی اور قائداعظمؒ نے یہی راستہ ہمیں دکھایا ہے۔ مذاکرات سے کسی بھی صورت منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ اس موقع پر راقم الحروف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا بھارت کا مقابلہ ہم صرف ایمان اور ایقان کی قوت سے ہی کرسکتے ہیں۔ یہ ایمانی قوت ہی تھی کہ جس نے پاکستان سے ایٹمی دھماکے کروائے اور ہم بھارت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ مسئلہ کشمیر کا حل بھی صرف اس ایمانی قوت سے ہی ممکن ہے۔ ہندو کی نفسیات ہمیں یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ کبھی گریبان اور کبھی پاؤں پکڑ لیتا ہے ۔ مسئلہ کشمیر پر آج بھی نوائے وقت اور سالار صحافت مجید نظامی مرحوم کا مؤقف اٹل ہے۔ میرا فکری اور قلمی تعلق نوائے وقت سے ہے‘ لہذاٰ میں آج بھی کہتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف ایمانی قوت سے ہی ممکن ہے۔ کانفرنس کے بہت سے شرکاء انگریزی زبان میں خطاب کر رہے تھے‘ اس پر راقم الحروف کا کہنا تھا کہ ہمارا تعلق قیام پاکستان کی تیسری نسل سے ہے اور دو مظلومین ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ ایک کشمیر اور دوسری اردو زبان۔ جب تک ایمانی قوت پیدا نہیں ہو گی یہ ہر دو مظلومین ہمارے ساتھ رہیں گے۔ خاکم بدہن کشمیر آزاد ہوگا‘ نہ اردو قومی زبان بنے گی۔ طلعت عباس ایڈووکیٹ نے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں مودی نوازشریف تعلقات پر نکتہ چینی کرنے والوں کی سوچ کو منفی قرار دیا اور کہاکہ نواز شریف اور مسلم لیگ ن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے صحیح راہ پر چل رہے ہیں۔ کالم نگارآفتاب ضیاء نے کانفرنس میں اظہار خیال کے ساتھ ساتھ اپنی خوبصورت نظم بھی شرکاء کو سنائی۔ نیشنل پریس کلب کے صدر شہریار خان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے تناظر میں پاکستانی میڈیا کو بھارتی میڈیا کا ہر سطح پر مقابلہ کرنے کا رحجان اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا ہمارا میڈیا خبروں کے اجراء میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی راہ پر گامزن ہے۔ شرکاء کا خیال تھا کہ او آئی سی سمیت آزادکشمیر حکومت اور پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی انتہائی کمزور اور اس ضمن میں اپنے جملہ فرائض سے نابلد ہے‘ کانفرنس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر پرویز رشید کا مؤقف تھا کہ جنگ در حقیقت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں‘ ہمیں ہمارے اسلاف نے جمہوریت اور مذاکرات کی راہ دکھائی تھی‘ ہم اسی پر کاربند ہیں۔