اسلام آباد (صلاح الدین خان) سپریم کورٹ میں بھی سال 2015ء اختتام پذیر ہوا بہت سے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہی۔ اس سال دیوانی فوجداری 14ہزار نئے مقدمات درج ہوئے 11ہزار مقدمات نمٹائے گئے زیر التواء مقدمات کی تعداد تقریباً 27ہزار ہے اس سال آئین کے آرٹیکل 184/3 انسانی حقوق کے تحت 10سوموٹو نوٹس لئے گئے جبکہ اس حوالے سے متعدد مقدمات کے فیصلے بھی کئے۔ دو چیف جسٹس ناصر لملک اور جسٹس جواد ایس خواجہ ریٹائرڈ ہوئے اور جسٹس انور ظہیر جمالی 31دسمبر 2016ء تک کیلئے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ سمیت پانچ ججز جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس رحمت حسین جعفری، جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس اعجاز احمد چوہدری ریٹائر ہوئے۔ نئے جسٹس صاحبان منظور احمد ملک،سردار طارق مسعود اور جسٹس فیصل عرب کے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے ریگولر ججز کی تعداد 16ہوگئی ہے، ابھی بھی ایک ریگولر جج کی آسامی خالی ہے۔ اسکے علاوہ دو ایڈہاک جج جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس طارق پرویز کو تعینات کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ میں سال 2015ء میں اہم فیصلے جاری کئے ان میں ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد، اردو کو بطور دفتری زبان رائج کرنے، سندھ حکومت کا بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کا معاہدہ کالعدم قرار دینے، نایاب پرندے تلور کے شکار پر پابندی عائد کرنے کے احکامات شامل ہیں۔تحریک انصاف کے درینہ مطالبے پر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سابق چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا، انکوائری کمیشن نے تمام فریقین کو تفصیلی سننے کے بعد تحریک انصاف کے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دئیے۔ اٹھارویں اور اکیسویں ترامیم کیخلاف 36درخواستیں دائر کی گئیں۔ سپریم کورٹ کے سترہ رکنی فل نے طویل سماعتوں کے بعد اکثریتی فیصلے سے درخواستیں خارج کرتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق، آزاد عدلیہ، پارلیمانی نظام اور آئین کے دیباچے کو آئین کا بنیاد ی ڈھانچہ قرار دیا۔