اقوام متحدہ کی سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان کے صوبہ خیبر پی کے میں منشیات کا استمعال سب سے زیادہ ہے۔ یہ نوجوان طبقے میں 9 سے 10 فیصد جبکہ صوبے کی آبادی کا بڑا حصہ بھنگ‘ افیون اور دیگر نشہ آور اشیاءکا استعمال کرتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں نشے کا شکار افراد میں ایک بڑی تعداد کیمیکل کا نشہ کرتی ہے جبکہ 1.8 فیصد افراد مختلف طریقوں سے نشہ کرتے ہیں۔ بلوچستان میں سرنج کے ذریعے نشے سے 17 ہزار افراد نشہ کے عادی ہیں۔ پنجاب میں آبادی کا بڑا حصہ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں 15 سے 64 سال کی عمر کے افراد مختلف طریقوں سے نشہ کے عادی ہیں۔ صوبہ کے 8 لاکھ 40 ہزار افراد ہیروئن اور 86 ہزار افراد افیون کا نشہ کرتے ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر منشیات کے اعدی نوجوانوں کی تعداد انتیس ملین سے زائد ہے جبکہ چھ برس قبل یہ تعداد 27 ملین تھی۔ اس کے علاوہ بارہ ملین انسان اپنی انتیس ملین میں سے ان 14 فیصد افراد کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جو ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہیں اور منشیات کے استعمال کیلئے انجکشن لگاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی منشیات کا 40 فیصد حصہ کراچی کی بندرگاہ اور ہوائی اڈے کے ذریعے سمگل کیا جاتا ہے۔ا فغانستان سے 40 فیصد حصہ کراچی جبکہ 60 فیصد حصہ دیگر ممالک کے راستے ناجائز اور خفیہ طریقوں سے فروخت کیا جاتا ہے۔ منشیات میں ہیروئن سب سے زیادہ نقصان دہ نشہ ہے جو ہر گلی محلہ میں دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل سٹوروں پر ایسی ادویات میسر ہیں جن کے استعمال سے نوجوان تباہ ہو رہے ہیں۔ کوئی گولیوں‘ کیپسول کا استعمال کر رہا ہے تو کوئی انجکشن لگا کراپنی عادت پوری کراتا ہے۔ ڈیرہ غازیخان‘ سندھ‘ بلوچستان اور صوبہ خیبر پی کے کے سنگم پر واقع ہے۔ ان تینوں صوبوں سے لوگ ڈیرہ غازیخان قریبی ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہونے کی وجہ سے خرید و فروخت کرنے کے لئے آتے ہیں اور ڈیرہ غازیخان میں باہر سے کیا لاتے ہیں کہ ڈیرہ غازیخان میں غربت‘ بے روزگاری تو پہلے ہی ڈیرے ڈالی بیٹھی ہے اوپر سے منشیات گلیوں‘ محلوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ”کاروبار“ ہمارے بڑے لوگوں کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ شراب تو پرمٹ پر مل جاتی ہے اور مخصوص گھروں میں دستیاب ہوتی ہے۔ شراب میں ”ملاوٹ“ سے بھی منشیات فروشوں نے خوب کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ شہر کے مخصوص علاقوں کے علاقہ ڈیرہ غازیخان سے متصل قصبہ گدائی میں منشیات فروشی کا دھندہ عروج پر ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے کے دس نوجوان اسی نشہ اور منشیات فروشوں کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ نوجوان نسل تیزی سے تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ اور بڑے ذہین و فطین نوجوان نشہ کے عادی ہو رہے ہیں اور نوجوانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس قصبہ میں چوری کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔موٹر سائیکل چوری اور گھروں میں ڈکیتی کا اضافہ ہو چکا ہے لیکن تھانہ گدائی کے ایس ایچ او بڑے ”اہتمام“ سے انکوائری کرتے ہیں اور پھر لوگ تھانہ کے دھکے کھا کر خاموش ہو کے گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ تھانوں میں شنوائی نہیں ہوتی۔ گدائی کے چند لوگوں نے ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے جنہوں نے NSPR کے تعاون سے سکول قائم کیا گیا ہے جس میں بچوں کو تعلیمی کتب مفت مہیا کی جاتی ہیں اور بچوں کی مالی مدد بھی کی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کے صدر مولانا غلام سرور عثمانی نے جب عوامی سطح پر منشیات فروشوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تو ان پر قاتلانہ حملہ کر کے اس آواز کو خاموش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ ان کا مطالبہ صرف یہی ہے کہ گدائی میں منشیات فروشوں ان کے پشت پناہوں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ قصبہ گدائی کے سیاسی کارکنوں اور معززین علاقہ‘ علماءکرام‘ مشائخ عظام نے اس مطالبہ کی تائید کی ہے کہ نوجوانوں کو بربادی سے بچایا جائے۔ یہ منشیات فروش معصوم بچوں کو بہلا پھسلا کر مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے قریب لا کر نشہ کے عادی بنا دیتے ہیں۔ اگر قصبہ گدائی میں خاص طور پر آپریشن شروع کیا جائے تو گلیوں میں منشیات فروشی کا دھندہ کرنے وازلے جو کسی سے نہیں ڈرتے‘ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے تو آنے والی نسلیں تباہی و بربادی سے بچ سکیں گی۔ علاقے کے ایم این اے مولانا عبدالکریم اور ایم پی اے سید عبدالعلیم شاہ اس سلسلہ میں اہالیان گدائی سے تعاون کریں تو معاملات بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس قصبہ گدائی سے نوجوان پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدوں پر پہنچے ہیں۔ پولیس‘ وزارت خارجہ اور ریونیو کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور آج بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ مختلف محکموں میں اپنے فرائض منصفی سرانجام دے رہے ہیں۔ اگر شہر میں اور خاص طور پر قصبہ گدائی کے بچوں کو نہ بچایا گیا تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ پولیس انتظامیہ اور دیگر ادارے مدد کریں اور م¶ثر آپریشن کے ذریعے منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈا¶ن کا آغاز کر کے انہیں اپنے انجام تک پہنچائیں۔