سال 2017 الودع،لیکن ہم رہے "جیسے تھے"

سال دوہزار سترہ بھی گزر گیا۔ جب سال گزرتا ہے تو ذہن میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی بھی نیا سال شروع ہوتا ہے تو اچھی توقعات اور خوش آئند امیدیں باندھی جاتی ہیں۔ فرد ہو یا قوم ،شہر ہو یا ملک ،یہی خواہش کی جاتی کہ آنے والے 365 دن زندگی میں خوشیاں اور خوشحالی لائیں ،امن ہو ، اور سکون ہو اور مستقبل میں آگے بڑھنے کی نئی راہیں کھلیں۔کیا 2017 میں ہمارے ملک میں ایسا ہوا؟۔ اس کا جواب اثبات میں دینا ذرا مشکل ہی ہوگا۔ کیونکہ جو سیاسی طوفان ، 2017 کے شروع میں مدھم نظر آرہا تھا وہ سال کے وسط تک پہنچتے پہنچتے اتنا شدید ہوگیا کہ اکثر لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ ملک ایک مرتبہ پھر شدید ترین آزمائش سے گزر نے والا ہے اور یہ بڑی حد تک درست بھی ہے۔ کیونکہ جو سیاسی کشمکش ہماری بڑی جماعتوں کے درمیان جاری رہی۔اس نے ایک فیصلہ کن رخ اس وقت اختیار کرلیا جب اعلیٰ عدلیہ کے ایک فیصلے کی وجہ سے اکثریت پارٹی کے لیڈر اور ملک کے منتخب وزیر اعظم کو وزارت اعلی چھوڑ کر گھر جانا پڑا۔ شاید یہ واقعہ حکومت کی مدت کے درمیانی عرصے میں واقع ہوتا تو اتنا گھمبیر نہ ہوتا۔جتنا کہ الیکشن میں صرف ایک سال رہنے کی وجہ سے ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدے سے رخصت تو ہو گئے لیکن اس سیاسی کشمکش میں اور شدت آگئی جس کو ختم کرنے کے لیئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ اب فیصلے کے بعد تمام عرصہ یہ ملک کے استحکام کو کمزور کرتا رہا۔حکومت کمزور ہوتی گئی ،کئی جگہ پسپائی اختیار کرنی پڑی جبکہ بعض جگہ جھکنا بھی پڑا ،جیسا کے فیض آباد دھرنے کے معاملے میں ہوا۔ سادہ سے الفاظ میں حکومت کمزور ہوئی اور ملکی حالات غیر مستحکم ہوئے۔ ظاہر ہے اس کے اثرات ،معیشت ، خارجہ امور ،حد یہ ہے کہ اس کے منفی سائے عام آدمی کی زندگی پہ بھی پڑ ے ۔ معیشت جس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ 5 عشاریہ 2 کو چھو رہی ہے وہ لرزنے لگی اور ہر طرف یہ شور ہونے لگا کہ ملک کی اقتصادی صورتحال بے یقینی کی کیفیت میں چلی گئی ہے۔لیکن سی پیک جیسے عظیم منصوبے نے بہت سارے منفی اثرات کو ختم کرنے میں مدد دی۔ اس عظیم پاک ،چین منصوبے کی وجہ سے جو کمزوری کے آثار ملکی معیشت میں خطرناک صورتحال اختیار کرسکتے تھے وہ کم تر رہے۔اسی لیئے سال کے آخر میں حکومت اس پوزیشن میں نظر آئی کہ وہ بڑے بڑے منصوبوں کا افتتاح کرسکے۔ اس میں زیادہ تر منصوبوں کا تعلق شاہراوں اور فلائی اوورز سے ہے لیکن بہر حال یہ بھی ترقی کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود ،لوڈشیڈنگ کا دباو کم ہوگیا۔ وہ علاقے جو مستقل تاریکی میں ڈوبے رہتے تھے انہیں روشنی ملنے لگی۔ اس سے بھی بہتر بات یہ ہوئی کہ صنعتوں کی بھی توانائی کی ضروریات بھی پوری کرنا ممکن ہوا۔ جس کی وجہ سے اقتصادی گراوٹ ایک حد سے زیادہ نہ ہوئی۔ لیکن تعلیم ، صحت اور سماجی معاملات ، سیاسی کشمکش کی وجہ سے بری طرح سے نظر انداز ہوئے اور ان شعبعوں میں طرقی کے بجائے گراف نیچے کی جانب جاتا دکھائی دیا۔ نہ جانے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ تمام سیاست کا مقصد تو ایک عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ اگر جماعتوں کے لڑائی جھگڑوں میں تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبے نظر اندا زہونے لگیں تو پھر ایسی سیاست اور ایسی جماعتوں کا کیا فائدہ۔ اسی موقع پر لوگوں کی زبان سے مایوسی کے یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ اگر جمہوریت سے ہماری زندگی بہتر نہیں ہوسکتی ،ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ، ہمارے بچوں کا اچھی تعلیم کا خواب پورا نہیں ہوسکتا اور بیماروں کو علاج کی سہولتیں نہیں دی جاسکتیں تو ووٹ دینے اور سیاست دانوں کو ایوانوں میں پہنچانے کا پھر کیا مقصد ہے ؟۔ عام آدمی پریشان ہوگیا کہ آخر جس ترقی کے خواب کی تلاش میں وہ بار بار بیلیٹ باکس کا رخ کرتا ہے آخر کار وہ تعبیر کیوں نہیں پاتے۔ کیوں ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے ملک کی ترقی کی نبضں ڈوبنے لگتی ہیں۔ یہ بڑا جائز سوال ہے جس کا جواب ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی دینا ہوگا۔ان تمام حکومتی ستونوں کو بھی جن پر یہ ریاست کھڑی ہے اور ساتھ ہی اہل فکر کو بھی اس کے اسباب بتانے ہوں گے۔ اس کے اثرات خارجہ امور پر بھی یقینا پڑے ہیں۔ ایک ایسی حکومت سے کوئی کیوں بات چیت کرنا پسند کریگا جس کے متعلق خود اس کے ملک میں کہا جارہا ہو کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ پاکستان کے چاروں طرف کوئی بہت خوشگوار ماحول نہیں اور مشرق وسطیٰ سے لے کر مشرق بعید تک مختلف قسم کے معاملات موجود ہیں جنہیں ایک مضبوط حکومت ہی سنبھال سکتی ہے۔ لیکن بہر حال اس ساری تاریک صورتحال میں سال کے آخری مہینے میں امید کی یہ کرن پیدا ہوئی ہے کہ اب عام انتخابات وقت پر ہونگے۔سینیٹ کے الیکشن بھی اپنی مدت پر ہونگے اور ایک مرتبہ پھر اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہوجائے گا۔ جانے والا سال ہمیں یہ سبق دے گیا کہ سیاسی جماعتوں کو اختلافات کسی بھی صورت میں دشمنی کی حد تک نہیں لے جانا چاہئیں۔ ملکی مفاد اور لوگوں کی بھلائی کی خاطر لچک دکھانے میں کسی کی انا اور عزت کو کوئی اندیشہ یا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ہاں البتہ اس کا یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ مستقبل میں لوگ ایک نئے حوصلے سے ترقی کی جدوجہد میں شامل ہوجاتے ہیں ،جو کسی بھی قوم کے لیئے ناگزیر ہیں۔ سال 2018 کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہم یہ دعا کرسکتے ہیں کہ چاہے ادارے ہوں ، سیاسی جماعتیں ہوں یا عوام وہ ہر بات میں ملکی مفاد کو ہی ترجیح دیں گے۔کیونکہ اسی میں اجتماعی بہتری کا راز مضمر ہے۔

ای پیپر دی نیشن