تعلیمی زاویۂ نگاہ

ارض وطن پہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا خاص کرم یہ ہے کہ یہاں کے کچھ لوگ شعور بانٹتے ہیں اور درد دل کے ساتھ وطن عزیز کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ شعور و آگاہی کی ترسیل خدمت ہے۔ جب یہ خدمت بے لوث اور درد دل کے ساتھ ہو تو عبادت بن جاتی ہے انہوں نے ہمیں پنجاب ایمپلائیز ایفی شینسی اینڈ ڈسپلن ایکٹ کے بارے میں بہت خوبصورت لیکچر دیا۔، سروس رولز کے بارے میں بھی عمدہ معلومات دیں۔ پرسنیلٹی ڈویلپمنٹ کو بھی اچھے انداز میں بیان کیا۔ یقیناً انیس بیس گریڈ کے آفیسرز کو پڑھانا آسان کام نہیں مگر یہ کام سر احسان بھٹہ صاحب کے پوٹینشل سے نہایت آسانی سے انجام پایا اور وہ خوب ڈومینیٹ کر گئے۔ جناب احسان بھٹہ صاحب نے ابھی چند ماہ قبل بحیثیت سپیشل سیکرٹری کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ محسوس یہ ہو رہا تھا کہ وہ بھی رکھ رکھائو والے یعنی ایک روایتی بیووکریٹ ہوں گے مگر احسان بھٹہ صاحب نے بتا دیا کہ ہر افسر ’’خاص‘‘ بیوروکریٹ نہیں ہوتا یا پھر بیوروکریٹس بھی بالکل عام بلکہ عوامی بھی ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ عوامی ہونا اور بالکل عام ہونا پبلک سروس دینے والوں کیلئے زیادہ ضروری ہے۔ 

سپیشل سیکرٹری جناب احسان بھٹہ صاحب نے ملکی خواندگی کی صورتحال کا بنگلہ دیش کی شرح خواندگی کے تقابل میں جائزہ پیش کر کے ہماری کمزوریوں کو نہایت اچھوتے انداز میں بیان کیا۔ انہوں نے ہمارے ہاں مادری و قومی زبان کی ناقدری کا احوال واضح کیا۔ بتایا کہ بنگلہ دیش سمیت ترکی و جرمنی جیسے ممالک میں شرح خواندگی کے تناسب کا وطن عزیز کے مقابلے میں بہترین ہونے کے پس منظر میں ان کا نظام تعلیم و نصاب تعلیم ون ٹو آل اپنی قومی زبان میں ہونا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک جو کہ شرح خواندگی کے سو فیصد ہدف کو مکمل کئے ہوئے ہیں وہاں کتابوں کی بھرمار سے طالب علم پہ بوجھ لادنے کا نہیں اور رٹے لگانا نہیں بلکہ ذہن نشینی کا طریق تدریس ہے جو ملکی تعلیمی جہت کو نکھار دینے میں مدد گار ہے۔ جناب احسان بھٹہ صاحب کی بات حقائق کی ترجمان اور قابل تحسین ضرور ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں عملی طور پر اپنے نظام تعلیم میں درستگی کی غرض سے تبدیلی چاہئے تو کیا تبدیلی چاہئے اور کون لائے گا یہ تبدیلی؟ سپیشل سیکرٹری صاحب ایک ذمہ دار آفیسر ہیڈ اور بلحاظ عہدہ تبدیلی وترقی کی مجاز اتھارٹی بھی ہیں وہ کام جو بہت پہلے ہونا چاہئے تھا کیا وہ کام اب ان کی بدولت ہو جائے گا، کیا جناب عالی اردو کو دفتری و نصابی (تعلیم کے اعلی درجوں پر) زبان قرار دینے کیلئے انتظامی سطح پر اپنے طریق کار کے تحت کچھ پیشرفت کریں گے؟ قارئین کرام! اردو ہماری محض قومی’’زبان‘‘ ہی نہیں بلکہ ہماری تہذیب، ہمارا تمدن، ہمارا ادب اور ہماری لیگیسی بھی ہے۔ سنا ہے محکمہ تعلیم کی طرف سے فارسی ادب کو ختم کیا جا رہا ہے حالانکہ فارسی ایک وسیع ادب و کلچر کی غماز زبان ہے اور اردو زبان کی آغوش مادر ہے۔ ہمیں اپنے کلچر کو ہمیشہ تعظیم دینا ہے اور نہایت محتاط فیصلے کرنا ہیں۔ کسی بھی ملک کی تعلیم کا مقصد اچھے شہری اور بہترین پروفیشنل پروڈیوس کرنا ہے۔ تجزیہ بتا رہا ہے کہ ہم ان کے مقاصد کے حصول میں اپنے مروجہ تعلیمی نظام میں چنداں کامیاب نہ ہو سکے۔ اچھے شہری سے مراد شخصی تربیت اور کردار سازی ہے۔ جناب احسان بھٹہ صاحب نے درست نشاندہی فرمائی کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کردار سازی کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے نصاب تعلیم کی تدریس کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں پر مکمل توجہ دینی چاہئے کیونکہ یوں طالب علم براہ راست ڈسپلن اور مینجمنٹ سیکھتے ہیں مگر یہاں ہی جناب عالی ظالم سیاست بھی آتی ہے جس کیلئے طالب علموں کو آلہ کار بنایا جاتا ہے تو اس نہج پر طالب علموں کو تعمیری کردار میں رہنے کی تربیت بھی دی جا سکتی ہے۔ جب ہم اچھے شہری کی بات کرتے ہیں تو طالب علموں میں جذبہ حب الوطنی کو ابھارنے اور پاکستانی ہونے پر احساس تفاخر پیدا کرنے کی ضرورت کو اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اگر ادارے محب وطن افراد پیدا کریں تو ہی اچھے شہری کے تصور کو سچ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اداروں سے دینی تعلیمات، ہسٹری و مطالعہ پاکستان و شعر و ادب ہی کو ختم کر دیا جائے گا تو محب وطن قوم کیسے ترتیب پائے گی؟ بے شک ہم نے پروفیشنل سائنسز اور ووکیشنل ایجوکیشن کو فروغ دینا ہے لیکن ایسا ادب و تاریخ اور دینی تعلیمات کا گلا گھونٹ کر ہی کیوں کیا جائے؟ یا ہمارے آباء کی شناخت دینے والے مضامین کے مقابلے میں لا کر انہیں فوقیت دیکر ہی ایسا کیوں کیا جائے؟ آج اگر فارسی، ہسٹری، مطالعہ پاکستان و اسلامیات و اردو ادب کو اَن پروڈکٹو سمجھ کر پس پشت ڈل دیا گیا تو کل ہمیں ممکن ہے پروفیشنلز تو مل جائیں مگر والدین، اساتذہ، بزرگوں، بڑوں اور رشتوں کی قدر کرنے والے نہ رہیں اور آج کے تھوڑا بہت ایثار و قربانی، محبت و اخوت کی بات کرنے والے نایاب تحفے بن کر رہ جائیں۔
قارئین کرام! دینی تعلیمات، پنجابی، فارسی اور اردو ادب سے ہمیں بلند خیالی و وسعت نظر ملتی ہے اور اس ملک کو محض کاروباری ڈاکٹرز اور دیگر پروفیشنلز نہیں بلکہ بلند خیال پروفیشنلز چاہئیں۔ کیا ہم بھی اپنے معاشرتی و سماجی نظام میں مشینی و مارکیٹنگ کی ترقی کر لیں اور انسانیت بے لگام کر دیں؟ ویسے بھی یہ بات زبان زدعام آ رہی ہے کہ ہمارا نصاب غیرملکی این جی اوز بنا رہی ہیں جو ملک کے اعلیٰ تعلیمی پرائیویٹ اداروں میں متحرک ہیں۔ اطلاع ہے کہ چند بین الاقوامی این جی اوز ملکی تعلیمی نظام و نصاب کو اس خیال سے بدلنا چاہتی ہیں کہ ہماری نسل نو گلوبل ورلڈ میں گلوبل ڈیمانڈ کے مطابق تیار ہو تو ٹھیک ہے وہ اپنا کام کریں… مگر ہمارے صاحب اختیار، پالیسیاں بنانے والوں اور پالیسیاں نافذ العمل کرنے ولوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم گلوبل سوسائٹی میں باوقار ہو کر ضرور کھڑا ہونا چاہتے ہیں لیکن گلوبلائزیشن میں اپنی شناخت (Identity) بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں جو تشخص جن بنیادوں و نظریات پر 1947ء کو ملا ہے ان نظریاتی بنیادوں کو ہمارے آباء نے اپنے خون سے سینچا ہے!

ای پیپر دی نیشن