ریشماں مرحومہ کا یہ گیت خوب سُنا جاتا تھا ’’ساتھ چار دناں دا ویر لمبی جدائی‘‘ 24 دسمبر کی صبح صادق کے وقت یہ مصرعہ مجھ پر ثبت ہو گیا پاکستان میں فن قرات کی ملکہ ترنم حافظہ قاریہ روبینہ سے میرا ازدواجی ساتھ 27 اکتوبر 1989 کو شروع ہوا اور پھر اتوار 24 دسمبر 2017 کو قدرت کی طرف سے لمبی جدائی کا اعلان ہوا اس اعلان پر سب ہی کو بلا استشناء لبیک کہنا پڑتا ہے۔ قاریہ روبینہ میری شریک حیات نہ بھی ہوتیں تو وہ لاریب قرآن پاک کی ایک ایک آیت میں ڈوبی ہوئی حافظہ قاریہ تھیں۔ ابھی وہ کم سنی میں تھیں کہ حضرت شاہ محمد غوث کے مرقد اطہر کے قریب زندگی گزارنے والے ولی کامل نے ان کی صورت دیکھتے ہی ان کے والد گرامی چوہدری خوشی محمد سے فرمایا تھاکہ یہ بچی قرآن پاک کے حوالے سے لازوال شہرت حاصل کرے گی چنانچہ اسی روز سے خوشی محمد صاحب نے حفظ قرآن پاک کے لئے اکبری منڈی میں ایک نابینا بزرگ حافظ حیات محمد کے سپرد کر دیا۔ 9 سال کی عمر میں حفظ قرآن کی سند مل گئی لحن اس قدر خوبصورت تھا کہ جو تلاوت سنتا مسحور ہو جاتا قرات کے مقابلوں میں جانا شروع ہوئیں اور ہر مقابلے کی ونر قرار پاتیں۔ یہ دیکھ کر ان کے گردونواح میں حسد نے بھی سر اٹھانا شروع کیا بعض مولویوں نے مقابلوں میں قاریہ روبینہ کی مسلسل شرکت اور پہلی پوزیشن دیکھ کر ان پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ حکومت پاکستان نے ایسے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ملائیشیا کے قرات کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے چار بار بھیجا۔ یہ پاکستان کی واحد قاریہ تھیں جنہیں ان کی ابتدائی جوانی میں یہ اعزاز ملا۔
قاریہ روبینہ نے کوئین میری کالج سے گریجوایشن کے بعد یونیورسٹی اورئینٹل کالج میں داخلہ لیا جہاں ان کے عظیم المرتبت استاد اور چوٹی کے عربی دان پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر صاحب نے ان کے فن کے ساتھ عربی زبان میں انہیں دسترس عطا کی عربی زبان میں ان کے دوسرے عظیم استاد حافظہ صدیق فیضی تھے۔ کئی چوٹی کے علماء کو فیضی صاحب کی شاگردی پر فخر ہے۔ ایم اے عربی میں پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس زمانے کے صدر ضیاء الحق بھی ان کی آواز سے متاثر تھے ان کی اہلیہ بیگم شفیقہ ضیاء الحق انہیں میلاد کے لئے آرمی ہاؤس مدعو کیا کرتی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کے حکم پر انہیں عربی کی لیکچر شپ آفر ہوئی 22 سال کنیئرڈ کالج میں پڑھایا پھر پروموشن ہونے پر اسلامیہ کالج کوپر روڈ سے وابستہ ہو گئیں۔ انہیں 3 جون 2019 کو ریٹائر ہونا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں صدر فاروق احمد خان لغاری نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ انہیں کئی بار حج عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہ امریکہ بھی مدعو کی گئیں۔ ملائیشیا کی رائل فیملی کے اہم رکن سید محمد عزیز ان کے بہت بڑے مداح اور قدردان تھے انہیں ٹکٹ بھیج کر تلاوت سننے کے لئے ملائیشیا مدعو کیا کرتے تھے۔ کالج کے بعد قاریہ روبینہ کا لمحہ لمحہ اپنے دارالقرآن میں گزرتا تھا جہاں کثیر تعداد میں عورتیں ان کے پاس آتیں۔ اپنے مسائل شیئر کرتیں اور کلام لیتی تھیں ان کی وفات پر سینکڑوں عورتیں ان کے آخری دیدار کے لئے آئیں۔ ہر عورت کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا۔ قاریہ روبینہ میری ماں تھی۔ وہ ہر عورت کی بات اپنے سینے میں مدفون رکھتیں اور کسی کا راز کبھی فاش نہ کرتیں۔
دوسروں کے لئے رازداری اور 24 گھنٹے مہمان نوازی ان کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔ ان سے جو ملتا وہ یہی سمجھتا قاریہ روبینہ میری ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں ان کی شاگردوں اور عقیدت مندوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ان کی وفات کے بعد عورتوں نے ان کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں پر سے پردہ اٹھایا کہ وہ مستجاب الدعوات تھیں۔ وہ اولاد نرینہ کے لئے سیبوں پر اللہ کا نام الٰہی لکھ کر دیتی تھیں انہیں 2010ء میں چھاتی کے کینسر کا عارضہ لاحق ہوا۔ وہ علاج کے بعد ٹھیک ہو گئیں لیکن گزشتہ 6 ماہ میں سوئے ہوئے مرض نے دوبارہ سے سر اٹھا لیا جو ان کی موت کا سبب بنا۔ وہ اتنی صابرہ شاکرہ تھیں کہ دوران بیماری زبان پر آیات قرآنی کا ورد رکھا۔ کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آیا۔ کینسر جیسی تکلیف کو خندہ پیشانی اور صبر سے برداشت کرنا انتہائی حوصلے عزم اور توکل کی بات ہے۔ اس لحاظ سے ان کا شمار صابرات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی پر پہلی بار 1971ء میں تلاوت کی۔ پی ٹی وی کے پروڈیوسر کلیم ملک صاحب نے ان کی آواز میں پورا قرآن کریم ریکارڈ کیا۔ یوں وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون تھیں جن کی آواز میں قرآن کریم ریکارڈ ہوا۔ وہ قرآن پاک کے جلی اور خفی علوم سے بخوبی آشنا تھیں۔ انہوں نے کبھی اور کسی بھی حالت میں کسی سائل کو مایوس نہیں کیا تھا وہ بلاشبہ مقربین الٰہی میں شامل تھیں 3 ماہ پہلے ایک برگزیدہ خاتون نے خواب دیکھا کہ ایک کفن تیار ہو رہا ہے جس پر قیمتی نگینے لگائے جا رہے ہیں۔ کفن آدھا تیار تھا خاتون نے پوچھا یہ کس کے لئے تیار ہو رہا ہے۔ جواب ملا قاریہ روبینہ کے لئے ٹھیک 3 ماہ بعد انہوں نے سچ مچ کفن اوڑھ لیا۔ ان خاتون نے ان کے جنازے کے موقع پر یہ خواب بیان کیا۔ قاریہ روبینہ نے 58 سال کی زندگی میں 47 سال قرآن کریم سے رفاقت رکھی۔ یہی رفاقت عالم برزخ میں بھی ان کے درجات بلند رکھے گی۔