وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیقحکومت کے ایک ذمہ دار وزیر ہیں۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے خواجہ سعد رفیق کے ایک بیان کو غیر ذمہ دارانہ اور فوج میں قیادت کی لڑی (chain of command) کے منافی قرار دیا۔ بے شک کبھی کبھی ذمہ دارلوگ بھی غیر ذمہ دارانہ بیان یا ٹویٹ جاری کر سکتے ہیں۔ بات تو احساس کی ہے۔اب جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نو سال فوج کے اور اس ملک کے ایک ذمہ دار سربراہ رہے۔ فوج کے ترجمان نے جنرل مشرف سے منسوب ایک بیان سے متعلق ایسی ہی ٹھوس رائے دینے سے گریز کیا۔ خواجہ سعد رفیق کے بیان کا مفہوم تھا کہ آرمی چیف جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر یقینِ کامل رکھنے والی شخصیت ہیں مگر شاید ان کے ماتحت افسران انکی اس پالیسی سے "مکمل اتفاق " نہیں کرتے۔اس بیان سے یقینی طور پر افواجِ پاکستان جیسے منظم اور مضبوط ادارے کے ڈسپلن اور اسکی قیادت کی لڑی سے متعلق ابہام پیدا ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے فوج کے ترجمان نے ایک وفاقی وزیر کے بیان کوغیر ذمہ دارانہ قرار دینے کا بیان جاری کیا۔مگر عجیب بات یہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق کے متنازع بیان کو تقویت دینے والا کوئی اور نہیں فوج کا ایک اپنا سابق سربراہ ہے۔
جی ہاں نو سال تک فوج کی سربراہی کرنے والے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے خواجہ سعد رفیق کے بیان کے اگلے ہی روز وہ بات کہہ دی جس کے مقابلے میں خواجہ سعد رفیق کا بیان بھی ہیچ لگتا ہے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے دس سال پورے ہونے پر جنرل مشرف نے بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں ایک بڑا انکشاف کیا ۔مشرف کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کے قتل میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مذہبی انتہا پسند اور سرکش گروہ کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔فوج اور ملک کے سابق سربراہ کے اس "ذمہ دارانہ" بیان سے وفاقی وزیر کے اس بیان کو تقویت ملتی ہے جس میں چند ماتحتوں کے ایک جمہوریت پسند آرمی چیف کی پالیسی سے اختلافات کے خدشے کا اظہار کیا گیا۔جنرل مشرف کا بیان تو ایک طرف ،فوجی ترجمان کے خود اپنے بیان میں جنرل مشرف کے خیالات کی تردید نہیں کی گئی۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے انگریزی اور اردو الفاظ کو ملا کر مشرف کے بیان سے متعلق یہ رد عمل دیا۔
"جہاں تک پرویز مشر ف کے بیان کا تعلق ہے تو میں موجودہ آرمی چیف کا ترجمان ہوں۔ ان کا جو بھی بیان ہو گا اور جو بھی بات ہو گی میں آج یہاں پر کھڑا اس کا جواب دوں گا۔میڈیا جنرل مشرف سے براہ راست رابطے میں ہے تو اسکے اوپر آپ ان سے مزید وضاحت مانگ لیں مگر میں آج کے دن کی بات کروں گا کہ فوج میں ایسے کوئی سرکش عناصر نہیں۔ افواجِ پاکستان میں ایسے کوئی سرکش عناصر نہیں ہو سکتے۔"
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مذکورہ بیان کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہے کہ اس میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے بیان کی تردید نہیں کی گئی۔فوجی ترجمان باآسانی یہ کہہ سکتے تھے کہ بینظیر بھٹو کے قتل میں فوج کے اندر 2007 میں بھی ایسے کوئی عناصرملوث نہیں تھے مگر انہوں نے یہ نہیں کہا۔ فوج کے ترجمان نے واضح طور پر کہا کہ آج وہ موجودہ آرمی چیف کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ آج فوج کے اندر ایسے کوئی سرکش عناصر نہیں۔ترجمان نے مشرف کی بات کو جھٹلانے کی بجائے میڈیا کو مشورہ دیا کہ جنرل مشرف کے بیان کی وضاحت انہی سے مانگی جائے۔
اب اس بات کا اندازہ کرنا کتنا مشکل ہے کہ جنرل مشرف کاغیر تر دید شدہ بیان زیادہ غیر ذمہ دارانہ ہے یا خواجہ سعد رفیق کا۔افواجِ پاکستان جیسے منظم اور باصلاحیت ادارے کو مشرف کے بیان پر ان سے نا صرف وضاحت مانگنی چاہیے بلکہ اس حوالے سے تحقیقات بھی شروع کرنی چاہئیں۔سیاسی حکومتوں کی طرف سے ماضی کی بدعنوانیوں پر تحقیقات نہ کرنے کے لئے یہ بہانہ تو معمول کی بات ہے کہ اس وقت ہماری حکومت نہیں تھی مگر فوج جیسے منظم ادارے ایسے کسی جواز کے متحمل نہیں ہو سکتے۔فوج میں سرکش عناصر کی موجودگی کے امکان کے حوالے سے اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی تاریخی رپورٹ بھی بہت کچھ کہتی ہے۔ اسی طرح آج بی بی کے قتل کے دس سال بعد یہ بات بھی زبان زدِعام ہے کہ بی بی کے قتل میں ملوث سات سے آٹھ ملزمان کا جب جب سراغ ملا انہیں چیک پوسٹوں یا امریکی ڈرون حملوں میں مار دیا گیا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو پیپلز پارٹی کی قیادت سرگوشیوں کے ذریعے کرتی ہے مگر اس حوالے سے عدالتوں میں گواہی تک دینے سے گھبراتی ہے۔ بینظیر بھٹو کے زیر سایہ اعلیٰ رتبے اور وزارتیں پانے والے جیالے ہر برسی پر ایک نیا شوشہ اور انکشاف لے کر آتے ہیں تاکہ اپنی کوتاہیوں اور بزدلی سے عوام کی توجہ ہٹا سکیں۔بی بی قتل کیس کے ملزمان کی عدالتی رہائی کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں کر رہی اور سندھ کے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے دھرنے بازوں کے ساتھ سیاسی ڈرامہ رچانے میں مصروف ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک جن کا بی بی کے قتل والے دن کردار آج بھی مشکوک ہے ، وہ ان دس سال میں نہ صرف یہ کہ بطور وزیر داخلہ تحقیقات میں ناکام رہے بلکہ بطور گواہ بھی عدالت میں پیش نہ ہوئے۔بدقسمتی سے سابق وزیراعظم نواز شریف بھی مشرف پر مقدمات کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔آج ایک بار پھر حکومت تو نواز شریف کی جماعت کی ہے مگر خود نواز شریف مشرف کو واپس لانے کے لئے ٹھوس اقدامات کی بجائے سیاسی نعروں کا سہارا لے رہے ہیں۔