سیاست دان ، خوف اور قانون فطرت

ہماری سیاست ہر روز تبدیل ہونا چاہتی ہے جس کسی کو کوئی کام نہ ملے وہ اس میں مداخلت اور اسکے اسرار و رموز پر اپنی تحقیق کیمطابق رائے دینا اپنا فرض اولین جانتا ہے۔ اخبارات پڑھ کر ٹی وی دیکھ کر اور اب سوشل میڈیا کے ذریعہ علم حاصل کر کے اس طرح رائے زنی کی جاتی ہے کہ جیسا صائب الرائے صرف وہی ہے۔ اگر سیاست اتنی آسان ہوتی تو اسکی تربیت کرنٹ افیرز کے ٹی وی پروگراموں میں تشریف فرما حضرات و خواتین خوب دے اور خوب لے بھی چکے ہوتے۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے کیلئے بہت سے طریقہ دنیا بھر میں متعارف ہو چکے ہیں۔ زبانی تشہیر ایک نہایت موثر طریقہ ہے مگر کیا سیاستدان رائے عامہ کو متاثر کرنے کیلئے سچ بولتے ہیں۔ اور سچ نہ بولنے والا ہمارے آئین کی دفعہ 62/63 کے تحت صادق اور امین رہ جاتا ہے۔ سچ بیان نہ کرنے یا سارا سچ سچے طریقے سے بیان نہ کرنے کی بنیاد پر ہمارے ملک کی سیاست نہ صرف ہر روز تبدیل ہو رہی ہے بلکہ نئی کروٹ لیتی دکھائی بھی دے رہی ہے۔ سیاسی راہنما اپنے رائے ہی کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں انکے بارے میں کسی بھی دوسرے کا کہا ہوا سچ جھوٹ کے سوا کچھ اور قرار نہیں دیا جا تا۔

ہم کتنے مہذب ہیں اس کا اندازہ گزشتہ کم از کم ایک برس کے دوران ارکان اسمبلی، سینٹ اور سیاسی جماعتوں کے اکابرین کروا چکے ہیں، حکومتی سچ کی تو شان ہی نرالی ہوا کرتی ہے۔ اربوں روپے حکومتی سچ کو تقویت دینے کیلئے خرچ ہوتے ہیں۔ عوام اب تو غالباً اچھی طرح یہ جان چکے ہیں کہ انکی فلاح و بہبود تعلیم ، صحت ، رہائش ، ٹرنسپورٹ ، زراعت، صنعت غرض زندگی کی بنیادی ضروریات ہر حکومت اس طرح پورا کرتی ہے کہ جس طرح حکمران جماعت نے انتخابات کے دوران اپنے انتخابی منشور میں زور دیکر تحریر کروایا تھا۔ اپنی ہر غلطی کا ذمہ دار پچھلی حکومت یا ریاستی نظام کو قرار دینا بھی ہر سیاسی جماعت جو کبھی اقتدار میں آئی ہو اپنا فرض سمجھتی ہے۔ خزانہ خالی تھا، معیشت دگر گوں تھی، سیاسی ڈھانچہ تباہ ہو چکا تھا ورثہ میں سب خرابیاں ہی یہی ملی تھیں، اپوزیشن نے کام نہیں کرنے دیا، ورنہ ہم آسمان کے قریب تھے کہ تار ے خود بخود ٹوٹ کر زمین پر گر جاتے۔
یہ کائنات جس میں ہماری زمین ایک بہت ہی چھوٹی حیثیت رکھتی ہے اور بظاہر ہمارے تصور سے بہت ہی بڑی کائنات میں کسی ایک ملک کے اور پھر اسکی ایک شہری کی اہمیت کیا ہو سکتی ہے۔ خالق کائنات نے معاشرہ کی تشکیل اور اس میں زندگی گزارنے کیلئے ضابطہ قانون قرآن کی صورت میں ہمارے پاس پہنچایا ہوا ہے۔ اس میں حقوق و فرائض سبھی واضح طور پر بتائے جا چکے ہیں ۔انسانوں اور راہنمائوں کو پہاڑوں کی طرح ادالزم بنا دیا ہوا ہے۔ سیاستدان جو رہبر اور رہنمائی کا نام کرنا چاہتے یقینا ایک درجہ بہتر ہو کر سوچنے کی صلاحیت کے مالک ہیں وہ جانتے ہیں کہ انکے دل سخت ہوتے ہیں ان کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور انکی کہی ہوئی بات پتھر کی طرح ہوا کرتی ہے۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدہ میں موجود ہے کہ پتھروں سے پانی نکل آیا کرتا ہے قطرہ قطرہ نکلتا پانی ندی اور دریا کا روپ دھار کر بالآخر سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔ یہ پتھر ہی ہے جو انسانوں اور راہنمائوں کو حوصلہ ، عزم ، ہمت دیتا ہے اور جب ان سے نکلا ہوا پانی دریا بن جاتا ہے تو پھر انسان کی حیثیت اسمیں تنکے سے زیادہ نہیں ہوا کرتی۔ اور تنکے بھی سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں۔
سیاستدان جنون کے بھی مالک ہوتے ہیں یہ جنون انسانوں کی مدد کرنے انکے مسائل حل کرنے ان میں زندگی کی کامیاب طرز کو پیدا کرنے یا ان کو تباہ و برباد کرنے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ بعض لیڈر سیاستدان یا رہنما قوم کو سدھار دیتے ہیں بعض پوری قوم کی تباہی کے ذمہ دار قرار دیئے جاتے ہیں۔سیاستدان اگر خوف زدہ ہو تو یہ واضح ہے کہ اسکی نیت ٹھیک نہیں، خوف ایک انداز فکر و نظر ہے اور یہ حادثہ برپا کرنے کے بعد ہی ختم ہوتا ہے، ہمارے ملک کے سیاستدان خوف کا شکار ہیں اور یہ ان کا اپنا پیدا کیا ہوا خوف ہے انہیں خوف ہے کہ ان کا احتساب نہ ہو اور وہ ہر کسی کا احتساب کر سکیں۔ مختلف حالتوں میں انکی سوچ مختلف ہوتی ہے اور جب یہ قانونی ضابطہ رائے عامہ یا کسی اور طریقے کیساتھ خود کو محفوظ بنانے کی خواہش کر کے انکی کوشش کرتے ہیں تو در اصل یہ اپنے غیر محفوظ ہونے اور اپنی بری نیت رکھنے کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔ انکی زندگی تنہائی کا شکار ہے، انہیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں کوئی طوفان آندھی یا سیلاب نہ آ جائے کیونکہ انکے پاس ان کو بچانے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ ہر سیاستدان یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بھی فلاح کا راستہ جانتا ہے اور اسکے بعد سب کچھ تباہ ہو جا ئیگا۔
یہ سیاستدان کی جبلت نہیں کہ وہ حالت خوف میں بھی انسانوں کے ساتھ محبت کر سکے۔ عدم تعاون کا احساس بھی انکی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ کوئی فرد ایسا نہیں کہ جو ہمیشہ زندہ رہ سکے اور زندہ رہنے کیلئے حال ہی ہوا کرتا ہے کہ میں زندگی بسر کی جا سکے، ماضی اور مستقبل انسان کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ ایک برس سے زائد ہو گیا ہمارے ہال کرپشن کے حوالہ سے تمام ادارے ، افراد ،سیاستدان متاثر ہو چکے ہیں، ابھی یہ منظر ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا بلکہ کروٹ تبدیل کرتا نظر آ رہا ہے ۔ کیا کوئی احتجاجی مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ رقوم کی واپسی ہو گی دیار غیر میں زندگی بسر کرنے کا ارادہ ہو گا یا انتخابات کے بعد پھر اقتدار نصیب کا حصہ ہو گا ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تا ہم یہ ضرور ہے کہ اس سب کو بند کرنے کیلئے فطرت نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔اگر فطرت نے ہی کردار ادا کرنا ہے تو یہ بھی قانون قطرت ہے کہ اگر معاملات خدا کے سپرد کر دیئے جائیں اور زندگی اور اختیارات اسکے بتائے طریقے سے گزاری جائے تو پھر زندگی کا خوف رہتا ہے اور نہ موت کا نہ ہی غریبی کا ذلت اور عزت کا فیصلہ بھی انسان کے بس کی بات نہیں، پکڑ تب ہوتی ہے جب جرم کیا ہو اور جرم تب ہوتا ہے جب جھوٹ زندگی کا سہارا اور حصہ بن جائے۔ سر کشی اور خود پسندی سیاستدانوں کا خاصہ ہوا کرتا ہے وہ عوام کی خدمت کے نام پر نہ صرف کرپشن کرتے ہیں بلکہ مسائل اور اختیارات کا جا استعما ل ان کا معمول بن جاتا ہے۔ ریاستی دولت اور وسائل سے غریبوں کی خدمت کے نعرے لگانا بہت ہی آسان کام ہے مگر نظر انداز کئے گئے افراد کیلئے ریاستی وسائل پیدا کر کے ان کو خوشحال کرنا ایک مشکل اورکر کٹھن کام ہے۔
فرد ، معاشرہ، ملک ،ریاست، تہذیب جب کرپٹ بے ایمان ، بے سمت اور خود غرض ہو جائے تو حکم عدولی اس میں سرایت کو جاتی ہے اور ایسے میں ایک طویل مدت اپنی شناخت کو بر قرار رکھنا بہت ہی مشکل بلکہ نا ممکن کام ہے۔ تہذیبوں کا خاتمہ بغیر وجوہ کے نہیں ہوتا، ممالک کی تباہی اقوام کی تباہی بھی انکے طرز عمل کے باعث ہی ہوا کرتی ہے۔ خوف زدہ کبھی ٹھیک فیصلہ نہیں کر سکتا، یہ اعصاب شکن ہے، خوف نیند چھین لیتا ہے زندگی کی راحتیں، قراراور خوراک کے فوائد بھی ختم ہو جاتے ہیں ۔
نیا سال شروع ہونے کو ہے ، احتساب عدالت سے فیصلہ آنے میں پر ابھی کچھ وقت باقی ہے، مگر اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کی کسی نہ کسی طریق سے تضحیک جاری ہے۔ ہر ادارہ خوف کا شکار ہو جائے تو پھر ریاست کیسے کامیاب رہے گی ۔ حکومت نام کی باقی ہے، فیصلے کرنا دشوار ہو چکا ہے ، کھینچا تانی اپنی انتہا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یوںلگتا ہے کہ دریا کا پانی حدود سے باہر آنے کو ہے۔ اگر دریا کا پانی باہر آ گیا اور پہاڑوں سے مزید برف پگھل گئی تو کیا ہو گا۔ ہو گا کہا سیلاب ہی آئیگا اور وہ بھی اس لئے کہ ہمارے پاس پانی جمع کرنے کیلئے ، ڈیم نہیں، ڈیم نہ ہونے کے باعث سپل وے کھل جائیں گے اور شہروں میں بھی سیلاب ہو گا فصلیں تباہ و برباد ہو سکتی ہیں۔ زندگی مفلوج ہو سکتی ہے۔ راستے بند ہو سکتے ہیں، ذرائع مواصلات ہونے کے باجود بے کار ہو سکتے ہیں، سیلاب کی تباہ کاریاں کسی کا لحاظ نہیں کیا کرتیں۔ سانحہ اگر برپا ہو گیا تو پھر کچھ نہ بچ سکے گا ابھی اس کے ظہور پذیر ہونے کے امکانات ہی نظر آ رہے ہیں۔تدبیر تقدیر کو بدلنے پر قدرت رکھتی ہے۔ اللہ کی رحمت پر بھروسہ ہی کیا جا سکتا ہے ، مایوسی گناہ ہے اور ایسی کوئی رات نہیں جس کے بطن سے دن پیدا نہ ہو اور ایسا کوئی دن نہیں جس کے بعد رات نہ آتی ہو۔ یہ اللہ کے فیصلے ہیں ، غلطی پر معافی ہی سب سے بڑا احساس ہوا کرتی ہے۔ اللہ اپنے انسانوں اور امت مسلمہ پر خاص طور پر رحم کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ غلطی تسلیم کر لی جائے، اللہ کی رحمت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے ، انسان غلطی کرتا ہی رہتا ہے۔ مگر انصاف کو جرم قرار دینا بہت بڑی غلطی ہے۔
یہ خواہش ہے کہ حالت خوف میں رہنے والے افراد، ادارے اور انکے ذمہ دار کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں کہ انسان سیلاب میں تنکوں کی طرح بہہ جائیں، نئے حالات نئے تقاضوں کو ساتھ لے کر آتے ہیں اور حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوتے جب تک ہم کرنے کا ارادہ نہ کریں۔

ای پیپر دی نیشن