لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتوں کے حالات کار کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ جس تیزی سے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے، اسکے مطابق ججوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ بعض مقامات پر عدالتیں بیت الخلاء جیسے ماحول میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ سال 2017ء کے اختتام پر پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں گیارہ لاکھ سے زائد مقدمات سماعت کے منتظر ہیں جبکہ لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 47 ہزار ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ ضلعی عدالتوں کیلئے ججوں کی منظور شدہ تعداد 26 سو مقرر ہے جبکہ صرف 17 سو 70 جج دستیاب ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پچاس جج فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ انکی تعداد 60 ہونی چاہئے۔ گزشتہ برسوں کی نسبت عدالتوں کی کارکردگی میں مقدمات کی زیادتی اور دبائو کے باوجود یقیناً بہتری آئی ہے۔ ایک طرف ججوں کی تربیت کا اہتمام کیا گیا تو دوسری طرف بچوں اور خواتین کیلئے الگ عدالتوں کا قیام بھی عمل میں آیا اور عدالتی نظام میں انفارمیشن ٹیکنالوجی متعارف ہوئی‘ لیکن جس طرح ملکی اور معاشرتی حالات کے تناظر میں مقدمات میں اضافہ اور عدالتوں پر دبائو بڑھ رہا ہے، اسکے پیش نظر ججوں کی مطلوبہ کمی پوری کرنے کیلئے کوئی حکومتی سنجیدگی نظر نہیں آئی جبکہ عدالتوں کے حالات کار بہتر بنا کر ہی نظام عدل کو بہتر اور کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ بنچ اور بار مل کر سائلوں کو جلد اور سستا انصاف مہیا کر سکتے ہیں۔ ججوں کی کمی کے باعث مقدمات کا بوجھ بڑھنے سے جہاں سائلوں کو انصاف ملنے میں تاخیر ہوتی ہے، وہاں بار کی آئے دن کی ہڑتالوں کے باعث بھی اس میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ حکومت کو عدلیہ کی تمام ضرورتیں ترجیحی بنیادوں پر پوری کرنی چاہئیں۔