حکومت مشرف کو ملک واپس لائے اور زرداری ان کیخلاف بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کی خود پیروی کریں

میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری دونوں کے مشرف کو بزدلی کے طعنے اور آئین و قانون کی پاسداری کے دعوے

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ آئین توڑنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔ پرویز مشرف کو جلد کٹہرے میں لائیں گے‘ وہ بزدل بن کر بیرون ملک بیٹھا ہے۔ مشرف کیخلاف کیسز کے معاملہ پر عدلیہ کو بھی جگانا ہوگا‘ ہم ملک اور قوم کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ گزشتہ روز جاتی امراء رائے ونڈ میں محفل میلاد کے بعد پارٹی کارکنوں سے بات چیت کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے کہا کہ ہم آئین و قانون کی حقیقی معنوں میں حکمرانی کی بات اپنے ذاتی نہیں بلکہ قومی مفادات کیلئے کررہے ہیں کیونکہ جب ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہوگی تو جمہوریت اور پارلیمنٹ سمیت تمام ادارے مضبوط ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی‘ آئین و قانون اور انصاف کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں آئین توڑنے والوں کو سزا دی جائے۔ وہ وقت ضرور آئیگا جب بزدل مشرف کو کٹہرے میں لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سابق ڈکٹیٹر میں ہمت ہے تو واپس آکر مقدمات کا سامنا کرے۔ میاں نوازشریف ہفتے کے روز لاہور سے سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ اسی طرح سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی سابق جرنیلی آمر پرویز مشرف کو چیلنج کیا ہے کہ وہ بہادر ہیں تو پاکستان آکر مقدمات کا سامنا کریں۔ گزشتہ روز ماڈل ٹائون لاہور میں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کے دوران ملکی اور قومی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشرف کے پاس اپنے موقف کے دفاع کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ وہ کمردرد کا کہتے ہیں اور ڈانس کرتے پھرتے ہیں۔ وہ اتنے بہادر کمانڈو ہیں تو واپس آجائیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انکی مفاہمت پارلیمنٹ اور جمہوریت کیلئے تھی۔ نوازشریف پارلیمنٹ میں آنا پسند نہ کریں‘ ملک کو اربوں ڈالر کا مقروض کریں اور بادشاہ بن کر بیٹھ جائیں تو وہ انکے ساتھ کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے موقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین و قانون کی حکمرانی اور آئین کے ماتحت قائم جمہوریت کی پاسداری ہی قومی سیاسی قائدین اور تمام سیاسی عناصر کا مطمح نظر ہونا چاہیے۔ اگر ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے تو تمام قومی ریاستی اداروں نے بھی آئین میں ودیعت کئے گئے اپنے اختیارات اپنی آئینی حدود وقیود میں رہ کرہی استعمال کرنے ہیں۔ اگر آئین کے ہوتے ہوئے بھی ملکی اور قومی معاملات آئین کے مطابق نہ چل رہے ہوں اور آئین کی پاسداری و عملداری کا حلف اٹھانے والی ریاستی اداروں کی شخصیات اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرتی نظر آرہی ہوں تو اس سے آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور مفقود ہو جاتا ہے اور ریاست میں جنگل کے قانون کا نقشہ بن جاتا ہے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارا وطن عزیز 9 سال تک سرزمین بے آئین رہا اور 1956ء میں آئین کی عملداری قائم ہوئی تو اسکے دو سال بعد جرنیلی آمر ایوب خان نے اکتوبر 1958ء میں شب خون مار کر اس آئین کو معلق کردیا اور اسکے ماتحت قائم منتخب حکومت گھر بھجوادی۔ پھر انہوں نے 1962ء میں اپنی ذات کو مرتکز کرکے آئین تشکیل دیا جو صدارتی طرز حکومت پر مبنی اور ایوب خان کا مرغ دست آموز تھا اسلئے اس آئین کی عملداری درحقیقت ایوب خان کی جرنیلی آمریت کو جواز فراہم کرنے اور انکے آمرانہ اقدمات پر مہر تصدیق ثبت کرنے کی خاطر انکے دور اقتدار تک قائم رہی جبکہ ایوب خاں کی جرنیلی آمریت کے تسلسل میں یحییٰ خان 1969ء میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بنے تو 62ء کے آئین کی نام نہاد عملداری بھی ختم ہوگئی اور ملک کا نظام و انتظام یحییٰ خان کے مسلط کئے گئے پی سی او کے تحت چلایاجاتا رہا تاآنکہ 71ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت نے اپنی پروردہ مکتی باہنی کے ذریعے پاکستان کو دولخت کردیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد یحییٰ خان نے امور حکومت و مملکت ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کرکے خود راہ فرار اختیار کرلی جبکہ بھٹو نے انہی کے پی سی او کی بنیاد پر اقتدار سنبھالا اور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کر سول جمہوری قدریں ملیامیٹ کردیں۔ بعدازاں انہوں نے 70ء کے انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونیوالی اسمبلی کو مغربی پاکستان کے منتخب ارکان کے ذریعے اپریشنل کیا اور اسے قومی اسمبلی کا نام دیا اور اسکے ذریعے خود کو باقیماندہ پاکستان کا وزیراعظم منتخب کرالیا۔ تاہم 1973ء کے اوائل تک ملک کا نظام عبوری آئین کے تحت ہی چلتا رہا جبکہ 1973ء میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر پارلیمانی جمہوری آئین پاکستان کی منظوری دی جس میں دفعہ 6 کے تحت آئین سے روگردانی کرنے اور آئین کو توڑنے کا جرم مستوجب سزا بنایا گیا اور اس جرم کی سزا موت متعین کی گئی۔ بدقسمتی سے پانچ جولائی 1977ء کو جرنیلی آمر ضیاء الحق نے اس آئین کو بھی توڑ موڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا اور بھٹو کی حکومت اور اسمبلی کو ختم کرکے ماورائے آئین اقدام کے تحت خود اقتدار پر براجمان ہوگئے چنانچہ وطن عزیز ایک بار پھر سرزمین بے آئین ہوگیا اور ملک کا انتظام ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت چلایا جانے لگا جنہوں نے آئین کی عملداری کیلئے آواز اٹھانے والے سیاسی کارکنوں کو قید‘ کوڑوں اور قلعہ بندیوں سے گزار کر اور ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل میں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے صادر کے گئے فیصلہ کی بنیاد پر تختۂ دار پر لٹکاکر 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر سیاسی جماعتوں کی غالب اکثریت نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو نوازشریف سمیت کئی نئے چہرے ان انتخابات میں منتخب ہو کر سیاسی لیڈر کے طور پر منظرعام پر آگئے۔ 85ء کی اس غیرجماعتی اسمبلی نے 8ویں آئینی ترمیم کے تحت ضیاء الحق کے ماورائے آئین اقدام کو تحفظ اور انہیں اسمبلی توڑنے کا صوابدیدی آئینی اختیار دے کر 1973ء کے آئین کو بحال کیا تو 1999ء تک امور حکومت و مملکت 73ء کے ترمیم شدہ آئین کے تحت چلتے رہے جسکے ماتحت محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف دو دو بار منتخب ہو کر اقتدار میں آئے جبکہ صدر نے اسمبلی توڑنے کے صوابدیدی اختیار کا ٹوکہ ان دونوں کی منتخب اسمبلیوں پر چلایا جسکے نتیجہ میں بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کو محض دو تین سال کی مدت میں گھر واپس جانا پڑا۔ میاں نوازشریف نے دوسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اسمبلی میں 12ویں آئینی ترمیم منظور کراکے آئین کی دفعہ 58(2)B والاصدر کا صوابدیدی اختیار ختم کرادیا مگر ان کا یہ اقدام بھی انہیں آئینی جمہوریت کیخلاف جرنیلی شب خون سے نہ بچا سکا اور 12 اکتوبر 1999ء کو جرنیلی آمر مشرف نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس وقت نوازشریف کو ایوان اقتدار سے نکال کر اڈیالہ جیل بھجوادیا جب وہ اپنے آئینی اختیارات کے تحت مشرف کو برطرف کرکے انکی جگہ نئے آرمی چیف کا تقرر عمل میں لاچکے تھے۔
یہ المیہ اس لئے رونما ہوا کہ اس سے پہلے ماورائے آئین اقدام کے تحت منتخب سول حکومتوں پر شب خون مارنے والے جرنیلی آمروں کو آئین میں شق 6 شامل کرنے کے باوجود نشان عبرت نہیں بنایا گیاتھا چنانچہ مشرف کو جرنیلی آمریتوں کو تقویت پہنچانے والے سیاست دانوں کی کمزوریوں کے باعث ہی 73ء کے آئین کو معلق کرنے اور منتخب اسمبلیوں کو گھر بھجوانے کا موقع ملا۔ مشرف دور میں میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی کے بعد سیاست دانوں نے اے آرڈی کے پلیٹ فارم پر لندن میں میثاق جمہوریت کیا جس کے تحت انہوں نے اپنی کسی مخالف حکومت کو الٹانے کیلئے جرنیلی آمروں کو اپنا کندھا پیش نہ کرنے کا عہد کیا مگر اقتدار کی کشمکش میں آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف سمیت میثاق جمہوریت پر متفق ہونیوالے سیاست دانوں نے اپنے اپنے اقتدار میں اس معاہدے سے صرفِ نظر کئے رکھا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ مشرف کی جرنیلی آمریت کے دوران پیپلزپارٹی کی قائد بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ء کو شہید ہوئیں مگر آصف علی زرداری کی زیرقیادت پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد مشرف کیخلاف آئین سے غداری کا مقدمہ چلانا تو کجا‘ بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ چلانے سے بھی گریز کئے رکھا اور پھر آصف علی زرداری نے صدر مملکت منتخب ہونے کے بعد مشرف کو پروٹوکول دیکر ملک سے باہر جانے کی سہولت فراہم کردی۔ اس طرح اس چوتھے جرنیلی آمر کو بھی آئین کی عملداری کا منہ چڑاتے ہوئے دندناتے رہنے اور منتخب جمہوریت کا مذاق اڑانے کا موقع مل گیا۔ پھر 2013ء کے انتخابات کے نتیجہ میں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو انکے پاس جرنیلی آمر کو نشان عبرت بنانے کا نادر موقع تھا۔ مشرف انہیں چیلنج کرتے ہوئے ملک واپس آئے تو میاں نوازشریف کی حکومت نے ان کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت کارروائی کیلئے ریفرنس تیار کرکے سپریم کورٹ میں دائر کردیا مگر اس میں انکے 12؍ اکتوبر 1999ء والے آئین کو سبوتاژ کرنے کے جرم کو شامل ہی نہ کیا اور ریفرنس انکے محض 2؍ اکتوبر 2007ء کے پی سی او والے اقدام کیخلاف دائر کیا جبکہ اس ریفرنس کی کارروائی بھی مکمل نہ ہونے دی گئی اور ای سی ایل سے انکا نام نکال کر انہیں بیماری کی بنیاد پر عدالتوں سے ضمانت لینے اور ملک کے باہر جانے کی سہولت فراہم کردی۔ موجودہ حکومت کی فراہم کردہ اس سہولت سے ہی مشرف آج تک فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ آج میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری انہیں بزدل قرار دینے پر یک زبان ہیں اور انہیں چیلنج کررہے ہیں کہ ان میں ہمت ہے تو ملک واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں۔
اگر آج ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری ہے تو اسے آئین توڑنے والی کم از کم موجودہ زندہ شخصیت پر تو لاگو ہونا چاہیے۔ میاں نوازشریف جو کسی نئی سیاسی حکمت عملی کے تعین کیلئے گزشتہ روز خود بھی سعودی عرب چلے گئے ہیں‘ یہ اعلان کررہے ہیں کہ مشرف کو جلد کٹہرے میں لائیں گے۔ قوم تو اس دن کی منتظر ہے جب آئین اور جمہوریت سے کھلواڑ کرنیوالے مشرف کو قانون کے شنکجے میں لایا جائیگا۔ میاں نوازشریف بے شک اس وقت خود اقتدار میں نہیں مگر انکی پارٹی تو برسراقتدار ہے اس لئے ان کیلئے مشرف کو انٹرپول کے ذریعے ملک واپس لا کر کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ وہ بسم اللہ کریں اور آئین کے مجرم کو کیفرکردار کو پہنچا کر آئندہ کیلئے ماورائے آئین اقدامات کا راستہ بند کردیں۔ اسی طرح آصف علی زرداری کو بھی مشرف کیخلاف بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کی خود پیروی کرنی چاہیے۔ محض زبانی جمع خرچ سے تو آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری قائم نہیں ہوسکتی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...