2017ئ: آغاز پر معاشی ترقی کی امیدیں‘ اختتام خدشات کیساتھ ہوا

اسلام آباد (عترت جعفری) 2017ء کا آغاز بہترین معاشی ترقی کی امیدوں کے ساتھ ہوا تھا۔ تاہم اس کا اختتام طرح طرح کے خدشات سے ہو رہا ہے۔ ڈالرکی قیمت میں اضافہ اس سال کی بڑی خبر بنی، درآمدات غیرمعمولی رہیں۔ جبکہ برآمدات میں اضافہ کی کوششیں بھی ثمرآور ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ حکومت کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ خسارہ دونوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔2017ء کے آغاز میں ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں تیزی واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔ عالمی مالیاتی اداروں کے پیشن گوئی کے برعکس 30 جون 2017ء کو ملک کے 5.3 فیصد کی شرح گروتھ حاصل کی۔ جسے بعد میں عالمی بنک ‘ آئی ایم ایف‘ اے ڈی بی نے بھی تسلیم کیا۔ تاہم یہی اس سال کی سب سے اچھی خبر ثابت ہوئی جولائی سے دسمبر کی تمام معیاد معاشی دھچکوں سے بھری رہی۔ پاکستان 30 جون کو ان ممالک کی صف میں شامل ہوگیا۔ جن کی معیشت کا سائز 300 بلین ڈالر سے بڑھ گیا تھا۔ رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ 6 فیصد مقررکیا گیا۔ تاہم نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہیں سیاسی بے چینی بڑھی اور بعدازاں میاں نوازشریف کے نااہلی کے بعد معیشت کے لئے آنے والی خبریں درست نہیں رہیں۔ روپیہ ڈالر کے مقابلہ میں مستحکم رہا۔ ایک دو بار اس کی قیمت میں کمی آئی بھی تاہم وزارت خزانہ اور سٹی بینک کی مداخلت سے روپیہ کی قدر بحال ہوگئی۔ اس دوران اسحاق ڈار کے وزارت سے سبکدوش ہونے کے بعد پالیسی میں ’’یوٹرن‘‘ لیا گیا اور برآمدات کو سہارا دینے اور کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ میں کمی کیلئے روپیہ کی قدر کو گرنے دیا گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی اس سال دباؤ میں رہے۔ جولائی کے بعد پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بھی تنزل کا عمل شروع ہوگیا۔ ایس ای سی پی کے چیئرمین کے خلاف مقدمہ اور منصب سے الگ کئے جانے کے بعد سے اب تک 100 انڈیکس 52 ہزار پوائنٹس سے گرتا ہوا 38 ہزار تک آگیا ہے۔ حکومت نجکاری پروگرام سے پیچھے ہٹ گئی۔ پاکستان سٹیل ملز‘ پی آئی اے کی نجکاری کے پروگرام آگے نہیں بڑھ سکے۔ بجلی کا سرکلر ڈیٹ بڑھتے بڑھتے 800 ارب روپے تک جا چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کے بعد سے غیرملکی قرضوں کے حصول کی رفتار تیز ہوئی۔ گزشتہ 5 سال میں 36 ارب ڈالرکے غیرملکی قرضے لئے گئے۔ رواں مالی سال کے محض پہلے 5 ماہ میں 4 ارب ڈالر کے غیرملکی قرضے لئے گئے۔ این ایف سی کا ایوارڈ بھی لٹکا دیا۔ صوبوں کے اعتراضات کے باوجود فنانس کمشن کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا۔ تاہم ذیلی کمیٹیوں کے اجلاس ہوتے رہے۔ ملک کی ڈیٹ سروسنگ میں بھی اضافہ ہوا۔ یکم جولائی سے دسمبر تک کے عرصہ میں قریباً 3 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی کیلئے خرچ کرنا پڑے۔کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 2017ء میں 12 ارب ڈالر رہا۔ جولائی سے اکتوبر کے 4 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 5 ارب ڈالر تھا۔ ایف بی آر ریونیو بھی ہدف سے کم رہا ہے۔ مالی سال کے5 ماہ میں 1302 ارب روپے کا ریونیو ملا ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 14.67 بلین ڈالر رہے۔ افراط زر کی شرح 4.16 فیصد رہی۔ سی پیک منصوبے پر عملدرآمد جاری رہا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...