’’کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے‘ طاقت کا وحشیانہ استعمال جاری‘‘ چدمبرم کے بعد یشونت سنہا کی بھی تشویش
سابق بھارتی وزیر خارجہ اوربھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما یشونت سنہانے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یشونت سنہانے نئی دلی میں ایک خبر رساں ادارے کو دئیے گئے انٹرویومیں کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے دو مرتبہ دورے کے دور ان انکی وہاں ایک سینئر حکومتی شخصیت سے ملاقات ہوئی جس نے انہیں بتایا کہ میکاولی اور چانکیہ کی طرح ہر ایک کا کوئی نہ کوئی ریاستی نظریہ یا پالیسی ہوتی ہے لہٰذا بھارت کی بھی کشمیرکے حوالے سے ایک پالیسی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی باغی کو ختم کرنے کیلئے طاقت کا استعمال۔ جہاں تک بھارت کی کشمیر پالیسی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے غلطیاں ہی غلطیاں کی گئی ہیں۔ بھارت کی حالیہ حکومت اتفاق رائے، جمہوری یا انسانی طریقوں سے مسائل کے حل میں یقین نہیں رکھتی بلکہ وہ صرف طاقت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا جانتی ہے اور یہ بات کشمیریوں کے دلوں میں بھارت کیلئے مزید نفرت کا سبب بن رہی ہے۔ یشونت سنہانے مزید کہا کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہم صرف اور صرف فورسز کے سہارے کشمیر پر قابض ہیں۔دریں اثنا ء راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ شملہ معاہدے (1972)اور لاہور اعلامیہ (1999)کے تحت ہندوپاک دونوں حل طلب مسائل دوطرفہ طور پر حل کرنے کیلئے پرعزم ہیں،کسی تیسرے فریق یا ثالث کی کوئی گنجائش نہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت پاکستان کے مابین کشیدگی میں بر ف پگھلنے کے امکانات اس وقت دکھائی دیئے‘ جب گجرات میں منعقد ہونیوالی تین روزہ کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستانی تاجرانجمنوں کوبھی مدعو کیا گیا۔بھارت میں پارلیمنٹ الیکشن کے بعد دونوںمما لک کے مابین سرکاری سطح پر باضابطہ طور پرمذاکرات کاسلسلہ شروع ہو گا۔علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیرکے ضلع پلوامہ میںبھارتی سیکیورٹی فورسز نے ریاستی دہشت گردی کے تازہ واقعہ میں میں4 کشمیریوں کو شہید کردیا،کٹھ پتلی انتظامیہ نے علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کر دی۔
مقبوضہ کشمیر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بربریت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کشمیری عوام کسی صورت بھارتی غلامی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ تحریک حریت کو اپنے خون سے سینچتے آرہے ہیں‘ ان کو ایسی جدوجہد کا حق اقوام متحدہ کے چارٹر میں دیا گیا ہے جبکہ ایسی تحریکوں کو دبانے کیلئے طاقت کے استعمال کو دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ بھارت نے طاقت اور اپنے اثرورسوخ کے زور پر الٹی گنگا بہا رکھی ہے۔ وہ آزادی کی بات کرنیوالوں کو دہشت گرد جبکہ انکی حمایت کرنیوالوں کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دیتا ہے۔ 7 جولائی 2016ء کو برہان مظفر وانی اور اسکے دو ساتھیوں کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کے ذریعے شہادت کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو نئی مہمیز ملی۔ بھارت نے کشمیریوں پر تشدد کا ہر حربہ آزمایا مگر کشمیریوں کے جذبہ حریت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی نظر آیا۔ بھارت نے کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں پر مقبوضہ وادی میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ سوشل میڈیا کو عموماً بند رکھا جاتا ہے اسکے باوجود بھارت کشمیریوں پر اپنے مظالم چھپانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
انسانیت کا دکھ سمجھنے والے بھارتی مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ او آئی سی متعدد بار مذمت کرنے کے ساتھ بھارتی پرتشدد کے خاتمے اور مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دے چکی ہے مگر بھارت کے مظالم میں متواتر اضافہ ہورہا ہے جبکہ کشمیری عوام بھارت کے ظلم کے کسی ضابطے کو خاطر میں نہیں لارہے۔ اس پرزچ ہو کر بھارت نے کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔ گورنر راج کے ذریعے بھی کشمیریوں کی جدوجہد پر کوئی اثر نہ پڑا تو صدر راج لاگو کردیا گیا۔ صدر راج کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں گورننس دہلی سے کنٹرول کی جاتی ہے مگر صدر راج سے بھی بھارت کے نکتہ نظر سے بہتری نہیں آسکی۔ بھارت کی متشدد حربے اور صدر راج کے نفاذ سے صورتحال کنٹرول کرنے کی حکمت عملی ناکام اور مکمل طور پر فیل ہوچکی ہے۔ آج ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں بھارت کی مقبوضہ کشمیر پر گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔ یشونت سنہا سابق وفاقی وزیر رہے ہیں‘ ان کو بھی کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہورہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے جس کا مودی سرکار کو بھی ادراک ہے مگر وہ انسانیت کے بجائے ظلم و بربریت پر یقین رکھتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل اقوام متحدہ نے استصواب کی صورت میں تجویز کر دیا۔ بھارت اس حل کی طرف آنے کیلئے تیار نہیں جبکہ بھارت کے کٹھ پتلی رہنے والے حکمران بھی مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کی بات کرتے ہیں۔ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے بھارت کو متعدد بار مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا ہے۔ ارون دھتی رائے عرصہ سے طاقت کے استعمال کی مخالفت کرچکی ہیں۔
اور تو اور گزشتہ دنوں بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنٹ لیفٹیننٹ جنرل اے کے بھٹ نے مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے کیلئے کشمیریوں سے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کا ایک محدود کردار ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل بھٹ نے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کو اچھے نظم و نسق اورسیاسی مذاکرات سے حل کیا جاسکتا ہے جس طرح اٹل بہاری واجپائی کے دور میں شروع کیا گیا تھا، انہیں یقین ہے کہ موجودہ حکومت بھی صحیح وقت پر ایسے اقدامات کریگی۔ فوج صرف معمول کے حالات بحال کرنے کیلئے مدد کر سکتی ہے ،امن برقرار رکھنا فوج کا کام ہے لیکن مسئلے کا طویل مدتی حل حکومت کو خود ڈھونڈنا ہوگا۔ بھارتی جنرل نے اعتراف کیا کہ تحریک آزادی کشمیر کو عوام کے بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے۔ بڑی تعداد میں مقامی نوجوانوں کا مجاہدین میں شامل ہونا فوج کیلئے تشویش کا سبب ہے ، یہ تعداد بڑھ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ 200 مجاہدین کو شہید کرنے کے باوجود انکی تعداد میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ جنرل کا بیان بھارت کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ بھارت کو مسئلہ کشمیر طاقت کے ذریعے حل کرنے سے باز رہنے سے اگر فوج بھی رائے دے رہی ہے تو اس سے بہتر کس کی تجویز ہو سکتی ہے۔ بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم بھی واضح کرچکے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسئلے کو عوام کی اکثریت کے مطالبے کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ ہمیں ایک ایسا حل نکالنا چاہئے جو باعزت باوقار اور جموں و کشمیر کے عوام کی اکثریت کیلئے قابل قبول ہو۔
بھارت اپنے اندر سے اٹھنے والی مضبوط توانا آوازوں کو نظر انداز کرتا ہے تو کب تک وہ کشمیریوں کا خون بہاتا اور اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھاتا رہے گا؟ بھارتی فورسز نے جنت نظیر کشمیر کو جہنم زار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بھارتی فوجی سفاکیت سے کام لیتے ہیں‘ اسکی بھی ایک حد ہے۔ بے پناہ لوگوں معصوم بچوں اور نہتی خواتین پر ظلم کے باعث ہزاروں بھارتی فوجی ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ سیکڑوں نے خودکشیاں کرلیں‘ بھگوڑوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جو نارمل نظر آتے ہیں انکی گھریلو زندگیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ بھارت جب تک مقبوضہ کشمیر پر مسلط رہتا ہے‘ اسے ایسی ہی بھیانک صورتحال کا سامنا رہے گا۔سشما سوراج نے پاکستان بھارت تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حوالے دیئے ہیں‘ مسئلہ کشمیر سے بڑا تنازعہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہی محترمہ مذاکرات سے انکار کے بہانے تراشتی رہی ہیں۔ وہ کشمیر کا بھارت کو اٹوٹ انگ قرار دینے سے بھی دو قدم آگے جا کر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کی ملکیت قرار دیتی ہیں۔ شملہ معاہدہ اور لاہور اعلامیہ سے بھی بھارت ہی نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کی طرح راہ فرار اختیار کیا ہے۔
بھارتی میڈیا اور حکمران پاکستان کیخلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع نہ صرف ضائع نہیں کرتے بلکہ خودساختہ طریقے تخلیق کرلیتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کو بھارتی انتخابات کے بعد مذاکرات کا ماحول سازگار نظر آرہا ہے۔ اگلے ماہ جنوری کے وسط میںگجرات میں ہونیوالی تین روزہ وائبرنٹ کانفرنس میں 52 پاکستانی تاجروں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس دعوت سے بھارتی میڈیا کو کشیدگی میں برف پگھلتی نظر آرہی ہے۔ برف پگھلنے کا انحصار کانفرنسوں میں شرکت سے زیادہ نیتوں پر ہے۔ بھارتی میڈیا اپنے حکمرانوں پر پاکستان میں ہونیوالی سارک کانفرنس میںشرکت اور ایشیاء کپ میں بھارتی کرکٹ ٹیم بھجوانے پر زور دیگا؟ پاکستانی تاجروں کی گجرات میں کانفرنس میں شرکت کا خیرسگالی کے جذبے کے تحت جواب بھارت کی طرف سے سارک کانفرنس میں شرکت اور ایشیاء کپ میں ٹیم بھجوانے کیلئے آمادگی پر ہونا چاہیے۔