لاہور (ندیم بسرا) رواںسال 2018ءکا سورج سیاسی گہما گہمی کے ساتھ طلوع اور تبدیلی کے ساتھ غروب ہوا ۔رواں برس حکمران جماعت پی ٹی آئی کیلئے کامیابیوں کا سال ثابت ہوا جبکہ بڑی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی کےلئے اچھا ثابت نہ ہوا ۔ ن لیگی قیادت کوجیل جانا پڑا، بیگم کلثوم نوازکی وفات شریف فیملی کے لئے قیامت سے کم نہ تھی، پی پی قیادت بھی میگاکرپشن کیسز میں پھنسی رہی، ایم ایم اے کا دوبارہ فعال ہوکر الیکشن میں مایوس کن نتائج سال کی اہم شہ سرخیاں بنی رہیں۔ تحریک انصاف نے الیکشن جیت کر مرکز سمیت دو صوبوں میں حکومت بنائی، لیکن اسے سیاسی، معاشی عدم استحکام کا سامنا رہا۔ تفصیلات کے مطابق رواں سال ملک میں معاشی اور سیاسی عروج و زوال آتا جاتا رہا ۔ معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈالر 140روپے کے قریب مارکیٹوں میں گردش کرتا رہا۔ جس سے پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس کی قیمتوں کے ساتھ مہنگائی اور بیرونی قرضوں میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ رواں سال ملک میں عام انتخابات ہوئے اور پی ٹی آئی نے مرکز میں عددی اکثریت حاصل کی اور چھوٹی جماعتوں ق لیگ، عوامی لیگ ،ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے مل کر نہ صرف مرکز بلکہ خیبر پی کے اور پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب رہی اور بلوچستان میں اتحادی حکومت کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم الیکشن میں دھاندلی سے لیکر ایوان میں پہنچنے تک حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اور یہ تلخ حقائق ہیں کہ ملک میں تاحال سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے۔ اپوزیشن نے نیب کیسز پر شب وروز احتجاج کیا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت تقریباًچار مہینے گزرنے کے باوجود کوئی قانون سازی نہیں کرسکی۔ حکومت کو قانون سازی کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ جبکہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو سلیکٹڈ گردانتے ہوئے تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں، اپوزیشن نے عمران خان کو لاڈلہ لاڈلہ کی گردان لگائے رکھی۔ نوازشریف، شہبازشریف کو سزائیں سنائی گئیں اور دونوں کو جیل جانا پڑا۔ آصف زرداری کیخلاف کیسز کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ تقریباً ایک ہوچکا ہے کہ حکومت اور نیب کا گٹھ جوڑ ہے۔ احتساب عدالت نے اس وقت فیصلہ جاری کیا، جب نوازشریف کینسر میں مبتلا زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا اپنی بیوی کلثوم نوازکی عیادت کیلئے لندن میں موجود تھے۔ نوازشریف 13جولائی کو وطن واپس آئے اور اپنی بیٹی مریم نوازسمیت لاہور ایئرپورٹ پر خود کونیب حکام کے حوالے کردیا۔ ابھی نوازشریف جیل میں تھے کہ ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نوازکا لندن میں انتقال ہوگیا۔ جس کے باعث نوازشریف کو پیرول پر رہائی دی گئی تاہم بعد میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی سزائیں معطل کرکے رہائی کا حکم دے دیا۔ احتساب عدالت نے 19دسمبر کو العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ سنایا ہے۔ ن لیگ کے صدر شہبازشریف آشیانہ سکینڈل میں نیب کے زیرحراست ہیں۔ حنیف عباسی ایفیڈرین کیس میں جیل اور خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق نیب کی حراست میں ہیں۔ دانیال عزیز، طلال چوہدری، نہال ہاشمی توہین عدالت کیس میں نااہل اور متعدد نیب کی زد میں ہیں۔ پیپلزپارٹی کیلئے سال 2018ءکا آغاز اچھا جبکہ اختتام پریشانیاں اور سیاسی مشکلات پیدا کررہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اور ان سے جڑے رہنماﺅں و افراد کو بھی سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، بلاول بھٹو سمیت 172پارٹی رہنماﺅں کیخلاف جعلی اکاﺅنٹس کیس میں جے آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ اور حکومت نے آصف زرداری، بلاول بھٹو، فریال تالپور، مرادعلی شاہ، قائم علی شاہ سمیت 172رہنماﺅں کے نام ای سی ایل میںڈال دیئے ہیں جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے سندھ میں بھی حکومت سازی کی تیاری شروع کردی ہے۔ جس سے پیپلزپارٹی شدید سیاسی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس سب کے باوجود وزیراعظم نے گزشتہ روز بھی ایک بیان میں عوام کو تسلی دی ہے حکومت کو کسی بحران کا کوئی سامنا نہیں ہے۔ مذہبی جماعتوں کا دس برس بعد ایم ایم اے دوبارہ بحال ہونا اور کسی بھی صوبے میں اکثریت حاصل نہ کرنا بھی زیر بحث رہا۔ مولانا فضل الرحمن، حافظ حسین احمد اپنی سیٹوں پر ہار گئے۔ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی بھی اپنی سیٹ ہا رگئے ، 2018ء میں دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب مسلم لیگ ق نے دس برس بعد سیاسی میدان میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا اور وفاق اور صوبوں میں نشستیں جیت کر اپنی اہمیت کو منوایا۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے رواں سال کچھ اچھی اور تلخ یادوں کے ساتھ گزر گیا لیکن دعا ہے آئندہ سال ملک کیلئے بہتر ثابت ہو۔ سیاسی پنڈتوں کے نزدیک آئندہ سال کا سورج جہاں اپوزیشن جماعتوں کیلئے مزید تلخیوں کے ساتھ طلوع ہوگا وہاں نئے سال میں حکومت کے سامنے بھی بہت سارے چیلنجز پہاڑ بن کرکھڑے ہوں گے۔
2018ءتبدیلی
2018 میں تبدیلی آئی‘ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا
Dec 31, 2018