بیگم ثرقت سلطانہ اور ڈاکٹر آفتاب حبیب خاں کانام عام لوگوںنے نہیںسنا ہو گا مگر بارہ کہو میں المعراج حییب ٹرسٹ ہسپتال کے قیام سے یہ اللہ کے خاص بندوںمیں شمار کئے جا نے کے لائق ہیں۔ ان کی نیکیوں کی فصل اب برگ بار لا رہی ہے کیونکہ علاقے کے غریب اور نادار طبقے کی خدمت کا پاک عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بارہ کہو کی گنجان آبادی کے مرکز میں بدھ بازار کی گہما گہمی میں ایک میڈیکل کیمپ لگا۔ لوگ دسمبر کی چھٹیاں منا رہے تھے۔ گھروں میں آرام کر رہے تھے لیکن بدھ بازار میں خوب رَش تھا۔ لوگ موقع غنیمت جان کر بازار سے اشیائے ضرورت خرید رہے تھے کیونکہ اتوار اور بدھ بازار میں اشیائے ضرورت نسبتاََ سستی ملتی ہیں۔ لوگ یہاں ایک موبائل ہسپتال کو دیکھ کر ارد گرد سے جمع ہو گئے۔ ایک مسیحی بچی بھی اپنے والد کے ساتھ آگئی۔ پہلے اس نے ماں کی آنکھیں چیک کروائیں۔ پھر اپنی دوائی لی۔ جاتے جاتے اسے کرسمس کی مناسبت سے مبارکباد دی اور ساتھ ہی کرسمس کا تحفہ نیا سویٹر دیا تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کہنے لگی آپ نے تو میری خوشیوں کو دوبالا کر دیا۔ اس کی بیٹی کے لیے بھی سویٹر دیا۔ اس کے والد بولے اپنی والدہ کے لیے بھی کرسمس کا تحفہ لے لو۔ کیمپ جاری تھا۔ بارہ کہو اور بنی گالہ کے لوگ حیران ہو رہے تھے کہ اتنی سردی اور یخ بستہ ہوائوں میں یہ سر پھرے لوگ کہاں سے آگئے۔ چیک اپ بھی ہو رہا ہے۔ دوائیاں بھی مل رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ آنکھوں کا بھی چیک اپ ہو رہا ہے۔ جس کی نظر کمزور ہے اس کو عینکیں بھی مل رہی ہیں۔
بارہ کہو اسلام آباد کی گنجان آبادی ہے۔ یہاں زیادہ تر غریب لوگ آباد ہیں۔ شمالی اورجنوبی وزیرستان سے آنے والے پٹھان خاندان یہاں شفٹ ہو گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دن بھر مزدوری کی تلاشی میں سر گرداں رہتے ہیں یا پھر کوٹھیوں میں چوکیداری کرتے ہیں۔ سردی اگرچہ اپنے عروج پر تھی مگر کچھ لوگ ثواب کمانے کی دوڑ میں سبقت لینے کے لئے کوشاں تھے۔ لاہور سے گلاب دیوی ہسپتال کے شعبہ امراض چشم کے سربراہ بھی آئے ہوئے تھے۔ سوسائٹی ہسپتال کے ڈاکٹر بھی موجود تھے۔ ماشاء اللہ مریضوں کا چیک اپ جاری تھا۔ بدھ بازار سے لفافوں میں لدے پھدے لوگ موبائل ہسپتال کا رُخ کر رہے تھے خواتین کو جب پتہ چلا کہ چیک اپ کے ساتھ ساتھ عینکیں بھی مل رہی ہیں اور عینکوں کے علاوہ نئی جرسیاں اور سویٹر بھی مل رہے ہیں تو وہ جوق در جوق آنے لگیں۔ لوگوں نے موبائل ہسپتال کو گھیر لیا۔ عشاء کی نماز تک کیمپ جاری رہا۔200 سے زیادہ مریضوں کا چیک اپ اور علاج ہوا۔ بارہ کہوہ کے باشندے بار بار پوچھ رہے تھے کہ آپ لوگ دوبارہ اگلے بدھ کو آئیں گے ان کے خیال میں یہ میڈیکل کیمپ بدھ بازار کا حصہ ہے۔ رات گئے ٹیم واپس المعراج حبیب ٹرسٹ ہسپتال پلٹی۔ اس ٹرسٹ کا قیام ابھی حال ہی میں ہوا ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں یہ ہسپتال آباد ہو گیاہے۔ یہاں پہنچنے کے لیے سڑکیں یا تو ہیں ہی نہیں یا ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ گلیاں کچی ہیں۔ سیوریج کا کوئی نظام نہیں۔ آپ یقین کریں کہ 10 کلومیٹر کے علاقے میں غریب اور نادار لوگوں کے لیے کوئی میڈیکل سہولت نہیں۔ یہاں کسی قسم کا کوئی سرکاری ہسپتال نہیں ہے۔ لوگوں کو علاج معالجے کے لیے پولی کلینک یا کسی اور سرکاری ہسپتال میں جانا پڑتا ہے جہاں تک غریب آدمی کا پہنچنا بھی مشکل ہے۔ ان حالات میں بارہ کہو میں ٹرسٹ ہسپتال کا قیام ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس ہسپتال میں روزانہ 60-70 مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ غریب لوگوں میں موسم سرما کی مناسبت سے گرم کپڑے اور رضائیاں بھی تقسیم کی جارہی ہیں۔ مخیر حضرات کے تعاون سے سوسائٹی نے اس دفعہ اسلام آباد سوات، چترال، بلوچستان ، گلگت، ہنزہ ، گرم چشمہ، بارہ کہو میں تین ہزار رضائیاں اور سینکڑوں سویٹر اور جرسیاں تقسیم کی ہیں۔ بارہ کہو میں المعراج حبیب ٹرسٹ کی عمارت اسلام آباد کی نیک دل خاتون محترمہ ثروت سلطانہ نے عطیہ کی ہے۔ محترمہ ثروت سلطانہ دردِ دل رکھنے والی نیک
خاتوں ہیں۔ ان کے نیک سیرت بھائی 82 سالہ ڈاکٹر آفتاب حبیب خان بھی درویش منش انسان ہیں۔ وہ اپنا کروڑوں کا گھر پہلے ہی ایک خیراتی ادارے کو دے چکے ہیں۔ 25 دسمبر کی صبح سویرے یہاں خوب رونق لگی ہوئی تھی۔ ایک طرف بچے قرآن مجید پڑھ رہے تھے۔ ثمینہ خاتون پٹھان بچیوں اور خواتین کو سلائی کڑھائی کے طور طریقے سکھا رہی تھیں۔ تھر پار کر سے آئے ایک مولانا بچوں کو نماز سکھا رہے تھے۔ گہما گہمی تھی۔ عورتیں اور بچے جمع ہوتے جا رہے تھے۔ ڈاکٹر ارشد محمود میاں لاہور کے نامور آئی سرجن ہیں۔ وہ اپنی چھٹی کو قربان کر کے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ یہاں پہنچے ہوئے تھے۔ آنکھوں کا چیک اپ اور معائنہ کروا رہے تھے۔ لگ رہا تھا کہ بارہ کہوہ میں آنکھوں کے امراض سب سے زیادہ ہیں۔ دو تین گھنٹے میں ڈاکٹر ارشد محمود میاں نے دو سو مریضوں کا چیک اپ کیا۔ 150 سے زائد عینکیں تقسیم کیں۔ چھوٹے بچوں سمیت ہر ایک کی خواہش تھی ان کی آنکھوں کا چیک اپ ہو جائے اور انہیں ساتھ ہی عینک بھی مل جائے۔ دوائی کے ساتھ رعنائی بھی مل جائے۔ اس سے پہلے صبح سویرے ہسپتال میں میڈیکل کیمپ کا انعقاد ہوا۔ سب سے پہلے خواتین اور بچیوں کو درسِ قرآن سنایا گیا۔ پروفیسر نے روز مرہ مسائل اور نماز کے بارے میں دلچسپ انداز سے گفتگو کی۔ محترمہ ثروت سلطانہ اپنے عطیہ کردہ ہسپتال میں مریضوں اور خواتین کی رونق دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھیں۔ تھر پار کر کے قاری صاحب بچوں کو قرآن مجید پڑھا رہے تھے۔ ڈاکٹر آفتاب بچوں کو قرآن مجید پڑھتا دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ انہوں نے سارے بچوں کو پانچ سو کے نوٹ دیے ۔بچوں کے لیے عید کا سماں ہوگیا۔ ۔ درس کے بعد عورتوںاور بچیوں میں رضائیاں اور گرم سویٹر اور جرسیاں تقسیم کی گئیں۔ سخت سردی کے موسم میں گرما گرم کھانا اور اس کے ساتھ نئی رضائیاں اور جرسیاں ملنا ایک نعمت سے کم نہیں ،سپرنگ ویلی کے مکین خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ ڈاکٹر آفتاب بچوں کی طرح خوش ہو رہے تھے۔
بارہ کہو اور اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں دھند کا راج ہے۔ ہر طرف دھند ہی دھند ہے۔ دو روز قبل سورج گرہن بھی لگا ۔ لیکن دھند نے ماحول دھندلا دیا ہے۔ سڑکوں ، وادیوں ، میدانوں ، گلیوں ، بازاروں غرضیکہ ہر طرف دھند ہی دھند ہے۔ دھند اور سردی میں بارہ کہوہ کے مختلف علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگائے گئے۔ سردی کی وجہ بچوں اور بوڑھوں میں سینے کے انفیکشن اور بخار وغیرہ کی تکالیف عام ہیں۔ کئی بچوں اور بوڑھوں کی نظر کمزور تھی۔ ان سب کو عینکیںدی گئیں۔ پروفیسر مزمل احسن درسِ قرآن کے علاوہ اب حاذق حکیم بھی بن چکے ہیں۔ میڈیکل کیمپوں میں وہ جلدی سے اپنی حکمت کی دوائیوں کی پٹاری کھول کر حکمت کی دُکان سجا لیتے ہیں۔ عورتیں ان کی طرف فوراََ متوجہ ہوتی ہیں۔ دوا ابھی دیتے ہیں اور دُعا بھی ۔ٹرسٹ کی میڈیکل ٹیم نے لاہور سے آئی ہوئی ٹیم کے ساتھ دو دنوں میں 1500 مریضوں کا علاج کیا۔
انسانی خدمت کے یہ مناظر روح کو سرشار کر رہے تھے کیونکہ غریب طبقے کی خدمت وہ بھی سرد موسم میںان کی دہلیز پر جا کر کرنا آسان بات نہیں۔ خدا نے دراصل مخلوق خدا کی خدمت کیلئے کچھ لوگوں کو چن رکھا ہے ۔ یہ لوگ خوش قسمت ہیں کہ ان کا نیکیوں کا بینک بیلنس بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔