ایم کیو ایم کو سندھ حکومت کا حصہ بننے کی پیشکش تیز سیاسی چال

اسلام آباد (عترت جعفری)پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو 27دسمبر کے راولپنڈی کے جلسہ اور اس سے پہلے کئی بار 2020کو الیکشن کا سال قرار دے چکے ہیں کی طرف سے ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت سے الگ ہو کر سندھ حکومت کا حصہ بننے کی پیشکش ایک تیز سیاسی چال ہے جس سے دو نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ،پہلا نتیجہ سندھ حکومت پر وفاق کے بڑھتے ہوئیب دبائو کو کم کرنا اور اسے اپنی بقا کی فکر کی جانب متوجہ کرنا متوجہ کرنا اور صوبے میں کافی عرصہ سے پی پی پی کی کراچی میں بلدیاتی اداروں کے حوالے سے ایم کیو ایم کے ساتھ سیاسی کشیدگی کو معمول کے ورکنگ ریلیشن شپ کی طرف لانا ہے ، سندھ اسمبلی میں پی پی پی کو واضح اکچریت حاسل ہے تاہم گذشتہ چند ماہ میں پی ٹی آئی کے کراچی سے تعلق رکھنے والے راہنمائوں کے بیانات اور پی پی پی کو صوبے کی حکومت سے نکال باہر کرنے کے بیانات بھی آرہے تھے ،وزیر آعظم خود بھی کئی بار کراچی گئے اور اسلام آباد میں بھی کئی اجلاس ہوئے جن کا مقصد ترقیاتی اور انتظامی معاملات ہی بیان کیا گیا ،تاہم پی پی پی اس ساری ’’مووز‘‘ کو باریک بینی سے دیکھ رہی تھی ،اس سارے عرصہ میں بلاول بھٹو کا پی ٹی آئی کی حکومت کے بارے میں بیانات میں سختی آ رہی تھی ،ایم کیو ایم کے لئے معاملات پیچیدہ ہیں ،2018کے انتخابات میں ایم کیو ایم کو دراصل پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے ہی سیاسی نقصان اٹھانا پرا ہے اور وہ وفاق میں اسی جماعت کی حلیف ہے ،پی پی پی کی پیشکش پر ایم کیو ایم حتمی طور پر کیا جواب دے گی اس میں ابھی وقت لگے گا ،اس وقت جو بیان سامنے آیا ہے اس میں بظاہر نہ ہی کی گئی ہے ، تاہم ایم کیو ایم کے لئے ا اپنی سابق سیاسی پوزیشن کو بحال کرنا بہت اہم ہے ،کراچی میں وفاق کے منصبوبوں سے جو فائدہ ہو سکتا ہے وہ تو پی ٹی آئی اس کے ساتھ شئیر کرئے گی،تاہم بلدیاتی ادارے اگر اس کی مرضی کے مطابق چل پرتے ہیں تو وہ اس سے اپنی پوزیشن کو بحال کرنے میں مدد لے سکتی ہے،بلاول بھٹو نے بیان دے کر وفاق کی سیسی جماعت کو یہ احساس دلایا ہے کہ اس کے پاس بھی سیاسی دائو پیچ موجود ہیں،اس لئے زرا احتیاط کی جائے ۔

ای پیپر دی نیشن