بھارت ٹوٹنے کی پشین گوئی اگر کئی بھارتی مسلمان، سکھ ، عیسائی یا دلت کرتا تو اسے مودی سرکار کی زیادتیوں اور نا انصافیوں کا ردعمل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن تعجب ہونا چاہیے جب مستقبل کی ایسی بھیانک تصویر(ہندوؤں کیلئے)کوئی ایسا شخص دکھائے جو ہندو عصبیت، تعصب میں آر ایس ایس سے بھی بڑھ کر شہرت رکھتا ہو ۔ بھارت میں شیوسینا ایسی تنظیم ہے جو کٹر ہندو پرست اور بالخصوص مسلمانوں سے شدید نفرت کیلئے بدنام ہے۔ اسکے لیڈر سنجے راوت نے کہا مودی سرکار کی پالیسیوں کے باعث بھارت میں ہر روز بڑھتے انتشار اور عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے مابین ابتر ہونیوالے تعلقات کے باعث ہماری ریاستوں (صوبوں) کو سویت یونین کی طرح الگ ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔ سنجے راوت نے شیوسینا کے اخبار ’سانا‘ میں تحریر کردہ مضمون میں کہا ہے کہ ’’اگر مرکزی حکومت کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ سیاسی فائدہ کیلئے عوامی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے تو ملک کا شیرازہ بکھرنے میں وقت نہیں لگے جبکہ سال 2020 کو مرکزی حکومت کی ساکھ اورصلاحیت پر سوالیہ نشان کے طور پر دیکھا جائیگا۔‘‘ مضمون میں بھارت کی سپریم کورٹ کو بھی مرکزی حکومت کی تباہ کن پالیسیوں پر غیر معمولی خاموشی اختیار کرنے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ جہاں تک کہ مودی کی سربراہی میں بی جے پی کی حکومت کا تعلق ہے اس کا رویہ الیکشن میں فتح یاب کا نہیں بلکہ ملک کے فاتح کا ہے اور یہی وجہ ہے جن ریاستوں میں بی جے پی کی مخالف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہیں ان کیخلاف اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں بلا جواز دخل اندازی کر کے انہیںپریشان کیا جا رہا ہے۔ سی بی آر کو سرگرم کر دیا گیا ہے ۔ ای ڈی کے نوٹس بھیجے جا رہے ہیں ۔ انکم ٹیکس محکمہ کی جانب سے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ جس سے مرکزی حکومت کے خلاف شدید ناراضگی پیدا ہو رہی ہے اور بھارت کے دانشور طبقہ کی جانب سے ایسے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیوں سے پیدا شدہ ناراضگی اور انتشار ان ریاستوں کے عوام کو علیحدگی کے راستے پر ڈال سکتے ہیں جس پر شیوسینا کے سنجے راوت جیسے لیڈر بھی ملکی سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں لیکن بی جے پی کے لیڈر، کارکن اور وابستگان حکومتی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر ملکی مفاد کے منافی سرگرمیوں میں مگن ہیں۔ اوپر سے کارپوریٹ سیکٹر نے تجوریوں کے منہ کھول کر انہیں اپنے مفادات کی زنجیر میں جکڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کا سیدھا سادھا مسئلہ حل کرنے کی بجائے مختلف چکر بازیوں سے انہیں نئے زرعی قوانین ماننے پر مجبور کر کے کارپوریٹ سیکٹر کے چنگل میں پھنسایا جا رہا ہے۔
کسان مظاہرین میں غالب تعداد پنجاب اور ہریانہ کے سکھوں کی ہے جنہوں نے مودی کی ہٹ دھرمی کے خلاف ردعمل میں ان علاقوں میں مواصلاتی نظام تباہ کرنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے بھارتی فوج کیلئے بھی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ بھارتی فوج میں بھی سکھوں کی زیادہ تعداد ہے جن کا تعلق ان دونوں صوبوں سے ہے چنانچہ مودی اوراسکے ساتھیوں نے چانکیائی مکاری کے مطابق سکھوں کی خوشامد کی حکمت عملی اختیار کر لی ہے ایک تو بھارتی فوج میں سکھ فوجیوں کو رام رکھنا مقصود ہے دوسرے تمام سکھوں کو خوش کرنے کیلئے وزیر اعظم مودی نے دوہری چال چلتے ہوئے انہیں مسلمانوں سے برگشتہ کرنے کیلئے کئی سو سال پہلے گرو تیغ بہادرکے ساتھ مسلمان بادشاہ اورنگزیب سے منسوب زیادتی کا معاملہ اٹھانا شروع کر دیا ہے جبکہ یوپی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ یوگی نے اس قوالی کو آگے بڑھاتے ہوئے اعلان کیا کہ آئندہ نصاب میں گرو صاحبان کے حالات بھی نئی نسل کو پڑھائے جائینگے اور انکے ساتھ جو مسلمانوں کی جانب سے ظلم و زیادتی ہوئی ہے 27 دسمبر کا دن ان کی یاد میں منایا جائیگا۔ لکھنو میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آدتیہ یوگی نے کہا کہ خالصہ پنتھ نے ہندو دھرم کی حفاظت کیلئے شاندار کام کئے ان کی وجہ سے ہندو مذہبیت محفوظ ہے۔ بھارت میں گرونانک کے تمام مقامات کا پتہ لگایا جا رہا ہے ان کو شاندار بنایا جائے گا حالانکہ بھارتی حکومت نے گرونانک کی آخری قیام گاہ کرتار پور تک سکھوں کی رسائی آسان بنانے کے لئے پاکستان کی کوششوں میں بھرپور رکاوٹیں ڈالی تھیں۔ یوگی نے مزید کہا کہ اس میں شک نہیں گروگوبند سنگھ ہندو مذہب کی حفاظت کیلئے آئے تھے۔ اگر آدتیہ یوگی کی یہ بات درست مان لی جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے ہندو مذہب کی حفاظت اور بقا کیلئے اہم ترین کردار ادا کرنے والے سکھ خود ہندو کیوں نہ بن گئے۔ وزیر اعظم مودی کو بھی ٹی وی پروگرام ’من کی بات‘ میں سکھوں کے گرو صابحان کی یاد آگئی ۔ اس مکاری کا مقصد سکھوں اور مسلمانوں میں تلخی پیدا کرنا ہے۔ اگر مودی اور اسکے حواری سکھوں کو اپنے مذہب کا محافظ جانتے ہیں تو پھر انکے مفاد کیخلاف زر عی قوانین کا خاتمہ کیوں نہیں کر رہے۔
بلا شبہ لمحہ موجود میں مسلمانوں کے خلاف ہندو پوری قوت رکھتے ہیں تاہم سکھوں کو بھی انکے خلاف بھڑکانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ یاد رہے تقسیم برصغیر کے وقت بھی ہندوؤں نے سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا تھا مگر استعمال کر کے بے اعتنائی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا تھا۔ حالانکہ تقسیم برصغیر میں مسلمانوںاور ہندوؤں کے ساتھ ساتھ سکھوں کو بھی فریق بنایا گیا تھا اور سکھوں کی نمائندگی کیلئے سردار بلدیو سنگھ نے لندن کا دورہ کیا مگر ہندو لیڈروں کے بہکانے اور پٹیالہ کے مہاراجہ کے ایما پر ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے سامنے تلوار لہرا کر ہندوؤں کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ قائد اعظمؒ نے سکھ لیڈروں کو پنجاب میں جس میںپہلے ہریانہ اور چندی گڑھ بھی شامل تھا، خالصتان بنانے کی راہ دکھائی تھی مگر سکھ لیڈر کیونکہ ہندوؤں کے چکر میں آچکے تھے ان کا یہ عمل آئندہ نسلوں کیلئے پچھتاوا بن چکا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد ازاں ماسٹر تارا سنگھ نے کانگریس حکمرانوں سے پنجاب کو داخلی خود مختاری دینے کا مطالبہ کیا جسے ٹھکرا دیا گیا اور سکھوں کو اقلیتی گروہ میں شامل کر دیا گیا۔ بعد ازاں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے علم بغاوت اٹھانے، اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے قتل عام، اس سے پہلے دربار صاحب پر فوج کی چڑھائی کے زخم مندمل نہیںہوئے تھے کہ سکھ کسانوں کو کارپوریٹ سیکٹر کے چنگل میں پھنسا دیا گیا ہے۔ 30 دسمبر کو مذاکرات کا جو ڈھونگ مودی سرکار نے رچایا ہے یہ اس لئے نتیجہ خیز نہیں ہوگا کیونکہ مودی سرکار کارپوریٹ سیکٹر کی جانب سے کروڑوں ، اربوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے جو الیکشن فنڈز اور دیگر بہانوں سے بی جے پی لیڈروں کی تجوریوں میں پہنچائے گئے ہیں۔ سیدھی بات ہے جس کا کھاؤ اس کا گاؤ کے مصداق مودی سرکار اس سیکٹر کے مفادات کا تحفظ کرنیوالی پالیسیوں کو کیسے تبدیل یا ختم کر سکتی ہے۔ یہی کہا جا سکتا ہے ، ہائے ری مجبوری۔