کہتے ہیں کہ ہر اختتام ایک نئے آغاز کا سفر ہوتا ہے جب کہیں زندگی مر رہی ہوتی ہے تو وہیں کہیں ایک نئے روپ میںاس کا جنم بھی ہو رہا ہوتا ہے بالکل اسی طرح ایک سال کے جب ختم ہونے کا وقت قریب ہوتا ہے۔ دلوں میں اداسی کی کیفیت ہوتی ہے ‘ کہیں نئے سال کی امید بھی جنم لے رہی ہوتی ہے۔ سال 2020 بھی اختتام پذیرہونے کوہے۔ یہ سال اپنے منفرد نمبر کی حیثیت سے جب طلوع ہوا تو اس وقت ستارہ شناسوں ، جوتشیوں ، ماہر علم نجوم سب اس سال کو ایک آنیوالا مختلف سال قرار دینے لگے ۔لوگوں نے نئے سال کے خوبصورت عہدو پیمان کئے ، کچھ خود سے اور کچھ اپنے پیاروں سے وعدے کئے اور یوں نئے سال میں اس عزم اور امید سے داخل ہوئے کہ منفرد نمبر کا حامل یہ سال بھی اپنے لئے منفرد بنانا ہے ۔ سال کا آغاز تو ایک بہتر انداز سے ہوا لیکن جوں جوں وقت آگے بڑھتا گیا ۔ چائنہ کے صوبے یوہان سے ایک نئے وائرس کی موجودگی کی اطلاع دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں پھیلنی شروع ہوئی، ابتدا میں تو اسے سنجیدہ نہیں لیا گیا یہاں تک کہ امریکی صدر ٹرمپ اسے چائنہ وائرس کہہ کر پکارتے رہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آہستہ آہستہ اس نے چائنہ کے شہریوں کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں پھیلنا شروع کر دیا اور یوں مارچ کے مہینے میں اس وائرس نے ایک سنگین صورتحال اختیار کر لی ۔ دنیا بھر کے سائنسی ماہرین نے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین شروع کر دی اور اس کا واحد علاج یہی قرار پایا کہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے اور گھروں میں محصور رہنے میں ہی عافیت ہے اور پھر دنیا نے ایسی ویرانی دیکھی کہ گلیاں ، سڑکیں ، عبادت خانے ، شراب خانے ،مدرسے ، درس گاہیں ، کھیلوں کے میدان ، جوئے کے اڈے ، مندر ، بت خانے ، عیسائیوں کے گرجا گھر یہاں تک کہ اللہ کا گھر بھی اس ویرانی سے محفوظ نہ رہا ۔مکمل لاک ڈائون ، کبھی سمارٹ لاک ڈائون ، کبھی سارے کاروبار حیات کھول کے ہر طرح کے طریقے آزمائے جاتے رہے کہ کسی طرح اس عفریت سے جان چھوٹے اورپھر یہ وائرس انسانوں کو متاثر کرتا کرتا زندگیاں بھی نگلنے لگا ۔ جس سے لاکھوں لوگ اب تک لقمہ اجل بن گئے ہیں اور یوں یہ سال کچھ کرونا سے اورکچھ طبعی موت سے کیسے کیسے انمول ہیرے نگل گیا ۔پی ٹی آئی کے بانی رکن نعیم الحق ، نیلام گھر کے محترم طارق عزیز ، جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم ، معروف خطیب علامہ طالب جوہری ، پنجاب یونیو رسٹی کے شعبہ ابلاغ و صحافت سے تعلق رکھنے والے پرو فیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ،جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن صاحب، تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ مولانا خادم رضوی ، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان ظفراللہ جمالی ، صحافت کا بڑا نام عبدالقادر حسن اور اس طرح اور کتنے عظیم لوگ ہم سے اس سال بچھڑ گئے۔
عید الفطر کے دو دن پہلے پی آئی اے جہاز کے دلخراش حادثے نے بھی ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا ۔یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب جہاز اپنی لینڈنگ سے صرف ایک منٹ کے فاصلے پہ تھا ، منزل کے اتنے قریب پہنچ کے بھی منزل تک نہ پہنچ سکا اور یوں 76 لوگ جان کی بازی ہار گئے ۔ اگست کے اواخر میں تالاب کا منظر پیش کرتی ہوئی سڑکیں ، برساتی پانی سے بھرے ہوئے گھر، گند ے نالوں سے اٹھتا ہوا تعفن ، بجلی کو ترستے عوام ، یہ پاکستان کا معاشی اعتبار سے سب سے مضبوط شہر کراچی جہاں مون سون کی بارشوں نے اس شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ ان بارشوں میں کراچی کی سڑکوں پہ عوام کو بے یارو مدد گار دیکھ کے واقعی ایسا لگا جیسے کراچی کا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔لاہور موٹر وے پہ ہونے والے زیادتی کے واقعے نے بھی ساری قوم کو جھنجھوڑ کے ر کھ دیا۔ کاش جب زینب بچی کا واقعہ ہوا اور ہم سب شور مچاتے رہ گئے کہ ملزموں کو سر عام پھانسی کی سزا دی جائے اس وقت یہ قانون بن جاتا تو ایک ماں یوں سر عام اپنی اولاد کے سامنے بے آبرو نہ ہوتی ۔کتنی معصوم کلیاں وحشی درندوں کے ہاتھوں مسلنے سے بچ جاتیں ۔ کراچی تا خیبر سر بازار سال بھر عصمتیں لٹتی رہیں ، زیادتی کے واقعات ہوتے رہے اور ہمارے قانون سازی کے ایوانوں میں خاموشی طاری رہی اور یوں سر عام سزائے موت کا قانون ایک دفعہ پھر سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو گیا ۔
ایک دفعہ پھر اس سال بھی سال ہا سال سے ملکی مفاد کا نام لے کر ذاتی مفاد کے حصول کی کہانی دہرانے کا سلسلہ گیارہ جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جاری رہا ۔ موروثی سیاست کے کینسر نے سارے نظام کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ نواز شریف کے بعد مریم نواز، بے نظیر کی وصیت بلاول بھٹو ، شہباز شریف کا سیاسی وارث حمزہ شہباز اور اسفند یار ولی کے بعد ایمل ولی، مولانا فضل الرحمن کے بعداسعدالرحمن، ایسے جیسے تمام سیاسی پارٹیوں میں اور کوئی اس لائق ہی نہیں کہ عوام کی نمائندگی کر سکے ۔ سیاست میں اگر مصنوعی کردار ہوں تو یہ یوں ہی تماش بینوں کا کھیل بن جاتی ہے ۔ پاکستانی اپوزیشن کی سیاست کا سجا لکی ایرانی سرکس جو دائیں بازو کی سیاست ، بائیں بازو کی سیاست ، انقلابی سیاست ، مذہبی سیاست ، لبرل سیاست کا ملا جلا ایک ایسا چوں چوں کا مربع ہے جس کا ہر داعی اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہا ہے ۔ پی ڈی ایم کے سٹیج سے اس سال ایسی ایسی تقریریں سننے کو ملیں جس میں کبھی بد زبانی اور گالی گلوچ نظر آیا تو کبھی اپنے وہ ادارے جو اس ملک کی سلامتی کے محافظ ہیں انکے خلاف الزام تراشیاں سننے کو ملیں ۔ کبھی کسی نے آ کے اردو زبان کے خلاف نعرہ بازی شروع کی تو کسی صاحب نے آزاد بلوچستان کو نعرہ لگا دیا ۔ ۔ عوامی مسائل سے لاتعلق نظر آتے ان تمام جماعتوں کے انقلابی لیڈر صرف اور صر ف اپنے ذاتی مفاد کے تحفظ کی خاطر ملکی سلامتی کو دائو پہ لگائے بیٹھے رہے۔
دوسری طرف دنیا بھر کی سیاست میں بھی اس سال منظرنامے بدلتے ہوئے دکھائی دئیے انہی میں سے ایک، چند مسلم ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے ۔ یو اے ای ، بحرین کے بعد آنیوالے دنوں میں کئی اور مسلم ممالک کی جانب سے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی خبریں متوقع ہیں۔ اگست کے شروع میں بیروت دھماکے نے بھی ایک دفعہ دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ۔ اس سال دنیا میں ہونے والی نئی صف بندیاں ، نئے بنتے ہوئے اتحاد آنیوالے سالوں میں نئی لڑائیوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں ۔کشمیر پہ ڈھائے جانیوالے مظالم اس سال بھی یوں ہی جاری رہے ۔ ظلمت کی طویل ترین شب ڈھلنے کا نام نہیں لے رہی ہر دن ایک نئی قیامت بن کے آیا اور ہر رات سوگ کا سماں رہا ۔ بھارت کی کشمیر کے معاملے میں ہٹ دھرمی اور مودی کی نفرت انگیز سیاست کی وجہ سے اس سال بھی ہندوستان سے ہمارے تعلقات تنائو اورسرد مہری کا شکار رہے اور یوں یہ سال اپنی تمام تر ستم ظریفیوں کے ساتھ آخر کار بیت گیا ۔ کہتے ہیں کہ وقت کبھی ایک سا رہتا نہیں ،یہ سال اگر مشکل ترین سال رہا تو آنیوالے سال سے اچھے کی امید باقی ہے ،آئیے ایک نئی امید پر اس سال کو رخصت کریں ، کیونکہ یہ امید ہی ہے جو انسان کو روشنی دکھاتی ہے اور جینے کا حوصلہ دیتی ہے اور نئے سال میں اس دعا کے ساتھ داخل ہوں کہ اللہ تعالیٰ ساری انسانیت پر اپنا رحم فرمائے اور ہم سب کے ساتھ خیر کا معاملہ ہو ۔