کسی بل ٹیکس، منی بجٹ کا ارکان پارلیمنٹ کی زندگی پر اثر نہیں پڑتا

تجزیہ: محمد اکرم چودھری
 ارکان  پارلیمنٹ کسی بل سے متاثر نہیں ہوتے، کوئی بل، کوئی ٹیکس، کوئی منی بجٹ پیش ہو پارلیمنٹ کے تین سو بیالیس ارکان کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹیرینز نعرے لگانے، نمائشی احتجاج کرنے، توجہ حاصل کرنے کے لیے تھپڑ جڑنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ وزراء  حزب اختلاف کے رویے کو شرمناک تو کہہ رہے ہیں لیکن کیا حکومت کی طرف سے پیش کردہ منی بجٹ قابلِ فخر ہے؟۔ پارلیمنٹیرینز ویانا کا سگار پییئں، اٹلی کا چیز کھائیں، نیوزی لینڈ کے سیب کھائیں، سیلمن فش کھائیں، چھٹیاں انگلینڈ میں گذاریں انہیں کیا فرق پڑتا ہے، ملک مقروض ہو یا عوام پر اضافی بوجھ پڑے۔ بڑھکیں لگانے والے میاں شہباز شریف، کوئی فارمولا بنانے کا دعویٰ کرنے والے آصف علی زرداری اور حکومت کی الٹی گنتی شروع کروانے کے دعویدار بلاول بھٹو زرداری اہم دن کے موقع پر اجلاس کا حصہ ہی نہیں بنے۔ اگر انہیں عوام کا اتنا ہی دکھ تھا تو غائب کیوں رہے۔ سیاست دانوں کی بیان بازی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اگر حکومت نے عوام پر ظلم کیا ہے تو اپوزیشن اس ظلم میں برابر کی شریک ہے۔ اس بے جان اپوزیشن نے سوائے نعروں، اخباری بیانات اور ٹیلیویژن چینلز کے پروگراموں میں شرکت اور بے معنی گفتگو کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اپوزیشن رہنما بڑھکیں لگا کر سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن نے سارا وقت حکومت پر الزامات عائد کرنے اور ہر مشکل وقت میں حکومت کی مدد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ بجٹ ہو یا منی بجٹ اپوزیشن نے ہر جگہ حکومت کے سب سے اہم اتحادی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی عزت کا نعرہ لگانے والے اس کی بے توقیری کر رہے ہیں۔ یہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی مہذب شخص سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ "رہنما" ہیں۔ ایسے منتخب نمائندے جنہیں خود رہنمائی کی ضرورت ہو وہ عوامی مسائل پر خاک توجہ دیں گے۔ منی بجٹ آئی ایم ایف کی غلامی ہے یا کسی اور کی، اصل غلامی تو عوام کی ہے وہ اپنے ہی لوگوں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن