اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ نے منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے جس کے مطابق 343 ارب روپے کی جی ایس ٹی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ جی ایس ٹی کی مراعات کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ71 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کئے گئے ہیں۔ چاکلیٹ، ایوا کانڈو، درآمدی خوراک، درآمدی گاڑیوں سمیت درآمدات کو مہنگا کردیا گیا ہے۔ درآمدی خوراک کے آئٹمز کو بھی مزید ٹیکس کیا گیا ہے۔ غیر ملکی ٹی وی ڈراموں اور اشتہارات پر ایڈوانس ٹیکس عائد کردیا گیاہے۔ غیر ملکی ڈراموں کے ایک سیریل پر ایک لاکھ روپے فی قسط، ٹی وی پلے پر تین لاکھ روپے اور غیر ملکی ایکٹر کے حامل اشتہارات پر پانچ روپے فی سیکنڈ ایڈوانس ٹیکس نافذ کردیا گیا ہے۔ زیرو ریٹ کے 59 درآمدی آئٹمز پر معمول کا جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے۔ امپورٹڈ گوشت، پولٹری آئٹمز، درآمد ہونے والی سبزیوں، چاول، درآمدی دودھ پر بھی جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے۔ پرسنل کمپیوٹر، لیپ ٹاپ کمپیوٹر نوٹ بک کو مہنگا کر دیا گیا ہے۔ ادویات کے خام مال پر جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے جو اقدامات کیے گئے ہیں اس سے صرف 2ارب روپے کے نئے ٹیکس لگے ہیں۔ جبکہ 69ارب روپے کی ٹیکسیشن درآمدی آئٹمز پر کی گئی ہے۔ امپورٹڈ کیک، چاکلیٹ، بسکٹ، مٹھائیاں اور ٹافیاں بھی مہنگی ہونگی۔ جی ایس ٹی کی ضمن میں 272ارب روپے کی مراعات ختم کی گئی ہیں۔ تاہم اس ضمن میں جو ٹیکس ادا ہو گا وہ ایڈجسٹیبل ہو گا اور بعدازاں ان کو ادا کرنے والا اپنی ٹیکس کی ذمہ داری کی ضمن میں اس رقم کو کلیم کر سکے گا۔ اس وقت 144اشیاء ایسی ہیں جن پر رعایتی شرح سے 5سے 12فیصد کے درمیان ہے ان پر جی ایس ٹی 17فیصد کردی گئی ہے۔ موبائل فون کالز پر انکم ٹیکس ریٹ دس فی صد سے بڑھا کر15 فی صد کر دیا گیا۔ شیر خوار بچوں کے دودھ کی تیاری میں استعما ل ہونے والے آئٹمز کی درآمد پر 17فی صد جی ایس ٹی لگے گا، اس سے 15ارب روپے کا ریونیو ملے گا۔ ڈیوٹی فری شاپس پر بھی 17فی صد جی ایس ٹی لگے گا۔ 850سی سی سے زائد قوت کی کاروں اور سی بی یو کنڈیشن میں آنے والی الیکٹرک گاڑیوں پر بھی 17فی صد جی ایس ٹی لگے گا۔ بزنس سے بزنس ٹرانزیکشنز پر 17فی صد جی ایس ٹی لگے گا۔ پہلے اس کا ریٹ 16.9فی صد تھا۔ فارما کی را میٹریل کی درآمد پر استثنی ختم کر کے اس پر17 فی صد جی ایس ٹی لگا ہے۔ تاہم وصولی کے بعد اسے ری فنڈ کر دیا جائے گا۔ باقی جن اشیاء کو جی ایس ٹی کے 17فی صدکے ریٹ کے تحت لایا گیا ہے ان میں بیکریز میں تیار ہونے والی بریڈ، فوڈ چینز، پر17فی صد جی ایس ٹی لگے گا، تیار شدہ کھانے، سویٹ، میٹ شاپس پر جی ایس ٹی کا ریٹ7.5فیصد سے بڑھا کر17فی صد کیا گیا ہے، درآمدی سبزیوں کو مہنگا کیا گیا ہے، سرخ مرچ جو پیکجنگ میں فروخت نہ کی جائے اس پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے، امپورٹڈ سائیکل بھی مہنگے ہوں گے۔ سیریلز اور ملنگ انڈسٹری پر ٹیکس لگے گا۔ تاہم چاول، گندم، آٹا پر ٹیکس کا استثنی براقرار رہے گا۔ ماچس پر سترہ فی صد جی ایس ٹی لگے گا۔ برانڈ نیم کے ساتھ فروخت کئے جانے والے فلوریڈ ملک جو ری ٹیل پیکنگ میں بکتا ہے پر 17فی صد جی ایس ٹی لگے گا پہلے یہ ریٹ 10فیصد تھا۔ اسی طرح دیسی گھی، کریم، پنیر، پر جی ایس ٹی کا ریٹ 10فی صد کر دیا گیا، ڈیری مصنوعات کی مشینری اور آلات پر 17فی صد جی ایس ٹی ہو گا، اس وقت پی اور ایس کے ساتھ منسلک سٹورز پر دس فی صد جی ایس ٹی ہے اسے 17فی صد کر دیا گیا ہے،موبائل فونز پر یکساں 17 فیصد ٹیکس عائد، سونے چاندی پر ٹیکس 1 فیصد سے 17 فیصدآئل سیڈ کی درآمد پر ٹیکس 5 فیصد سے 17 فیصد،مائننگ کیلئے درآمدی مشینری پر 17 فیصد نیا ٹیکس لگے گا۔ساشے میں فروخت ہونے والی اشیاء کا ٹیکس 8 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد، غیر ملکی سرکاری تحفوں اور عطیات پر 17 فیصد ٹیکس لاگو،قدرتی آفات کیلئے موصو لہ مال پر ٹیکس لاگو، پوسٹ کے ذریعے پیکٹ ارسال کرنے پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ،درآمدی جانوروں اور مرغیوں پر 17 فیصد ٹیکس، زرعی بیج، پودوں، آلات اور کیمیکل پر ٹیکس 5 فیصد سے 17، پولٹری سیکٹر کی مشینری پر ٹیکس 7 فیصد سے 17 فیصد کردیا ،ملٹی میڈیا ٹیکس بھی 10 سے بڑھا کر 17 فیصد، بیٹری پر ٹیکس 12 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد، بڑی کاروں پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو، پیکنگ میں فروخت ہونے والے مصالحوں پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو، فلور ملز پر بھی 10 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا، پاور سیکٹر کیلئے مشینری کی درآمد پر بھی ٹیکس لگے گا گا جس سے بجلی مہنگی ہوگی، ڈیری مصنوعات، الیکٹرک سوئچ پر 17 فیصد ٹیکس عائد، برانڈڈ مرغی کے گوشت کے گوشت پر بھی 17 فیصد ٹیکس عائد، پراسس کئے ہوئے دودھ پر ٹیکس 10 فیصد سے 17 فیصد، ڈیری کیلئے مشینری پر بھی ٹیکس شرح 17 فیصد لاگوکر دیا گیا وفاقی وزیر خزانہ نے منی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ مشنری کے سیکٹر پر 112،اور فارما پر ایک سو ساٹھ ارب کی مراعات کو واپس لیا گیا ہے اس طرح اسکی جو مراعات ختم کی گئی ہیں وہ ایڈجسٹ ایبل ہیں انکا مقصد صرف ان سیکٹرز کو ڈاکومنٹ کرنا ہے یہ ساری رقم بعدازاں ری فنڈ کر دی جائیگی انہوں نے کہا کہ حقیقی طور پر صرف دو ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگے ہیں جبکہ لگژری آئٹمز پر انہتر ارب کے ٹیکس لگے ہیں جنکا عوام سے کوئی تعلق نہیں آئی عوام پر دو ارب کے ٹیکسوں سے کون سا طوفان آجائے ۔ایم ایف کیساتھ فوڈآئٹمز پر ٹیکس لگانے کے معاملے پر بہت لڑائی ہوئی ہم نے انہیں بتا دیا تھا کہ انکم ٹیکس پر کوئی اضافہ نہیں کرینگے پراویڈینٹ فنڈ پر ایک سو چالیس ارب روپے کی مراعات ہیں جنہیں برقرار رکھا گیا ہے مقامی دودھ گنا گندم پولٹری کھانے پینے کی اشیاء تعلیم سٹیشنری لیپ ٹاپ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا کھاد کی ان پٹ پر بھی کوئی ٹیکس نہیں سینما اور پرانے کپڑوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگا شوکت ترین نے کہا ہے کہ جتنا واویلاکیاگیا اتنی بات نہیں ہے ان اقدامات کا مقصد معیشت کو ڈاکومنٹ کرنا ہے انہوں نے کہا کہ افراط زر کھانے کے گھی تیل پٹرولیم سٹیل اور ایسے آئٹمز کیوجہ سے دباؤ میں آتے ہیں فارما کی ایک سو ساٹھ رعایات ختم کی ہیں وہ سترہ فیصد جی ایس ٹی دینگے اور اپنا ریفنڈ کلیم کرینگے ایف بی آر سات دن کے اندر ریفنڈ واپس کرنے کا پابند ہوگا اگر ایف بی آر ایسا نہیں کرتا تو ریفنڈ کا مالک اسے اپنی ٹیکس کی زمہ داریوں میں ایڈجسٹ کروا سکے گا سٹیٹ بنک کا بل بھی پیش کیا گیا ہے پی ٹی آئی کا منشور ہے کہ وہ اداروں کو بااختیار بنانا چاہتی ہے اس قانون کے تحت حکومت سٹیٹ بنک سے قرض نہیں لے سکے گی ابھی بھی ہم نے سٹیٹ بنک کا 6.4ٹریلین روپے کا قرض واپس کرنا ہے حکومت کے اقدامات سے افراط زر بڑھتا ہے بنک کو خود مختاری ملے گی لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ اس سے ملک کی خود مختاری پر سمجھوتا کیا گیا ہے بنک کااپنا انتظامی بورڈ فیصلے کریگا سارے اختیارات اسکے پاس ہونگے حکومت بورڈ ممبران کی نامزدگی کریگی صدر ممبران کا تقررکریگا سٹیٹ بنک پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کوجواب دہ ہوگا سٹیٹ کا مالی اور مالیاتی بورڈ میں مشاورت ہوگی جبکہ سٹیٹ بنک کے حکام کو کوئی پراسیکیوشن سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات فرخ حبیب نے کہا کہ آج ایوان سے شہباز شریف اور بلاول بھٹو لاپتہ تھے حکومت آج معیشت کی دستاویز بندی کیلئے بل لائی ہے پیپلزپارٹی نو بار اور مسلم لیگ ن چار بار آئی ایم ایف کے پاس گئی اسحاق ڈار ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر کے گئے تھے پہلے اپوزیشن کہتی رہی کہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس لیٹ گئی لیکن آج پارلیمنٹ میں طوفان بدتمیزی تھا ۔
منی بجٹ
اسلام آباد (نا مہ نگار/چوہدری شاہد اجمل) حکومت نے قومی اسمبلی میں مالیاتی ضمنی بل اور سٹیٹ بنک ترمیمی بل پیش کردیا۔ سٹیٹ بنک ترمیمی بل سپلیمنٹری ایجنڈا آئٹم کے طور پر لایا گیا تھا جسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ جمعرا ت کو سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا، قومی اسمبلی کی معمول کی کارروائی معطل کر دی گئی۔ کارروائی معطل کرنے کی تحریک بابر اعوان نے پیش کی۔ وزیرخزانہ شوکت ترین نے منی بجٹ ایوان میں منظوری کے لیے پیش کردیا۔ سٹیٹ بنک کی خودمختاری سے متعلق سٹیٹ بنک ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ اپوزیشن کی جانب سے زبانی ووٹنگ چیلنج کردی گئی اور سپیکر نے گنتی کروائی، جس پر اپوزیشن کو شکست ہوئی جہاں حکومت کو 145ووٹ مل گئے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے صرف تین ارکان مخالفت میں کھڑے ہوئے اور اپوزیشن ارکان کی اکثریت گنتی میں کھڑی نہیں ہوئی۔ سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل میں ترامیم پر مکمل بحث کرائی جائے گی اور سب کو بولنے اور تجاویز دینے کا موقع ملے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رکن اسمبلی خواجہ آصف نے کہا کہ آپ اپوزیشن اور پاکستان کے عوام کی زبان بندی کر کے پاکستان کی معاشی خودمختاری بیچ رہے ہیں۔ یہ دن اس پارلیمنٹ اور آپ کی کرسی کے لیے ہماری تاریخ میں یاد ہو جائے گا جس پر قوم شرمسار ہوگی کہ پارلیمنٹ کس طرح کا کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ وہ آرڈیننس بحال کر رہے ہیں جو ختم ہوچکے تھے جو آئین کے خلاف ہے، سٹیٹ بنک کا کنٹرول آئی ایم ایف کو دے رہے ہیں، آپ عوام کے اوپر مہنگائی کا پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خدا کے لیے پاکستان کے عوام پر رحم کریں، پاکستان کو نہ بیچیں، آپ نے تین سال یہاں لوٹ مار کی اجازت دی۔ دوائیوں، گندم اور چینی چوری کرنے کے اجازت نہ دیتے تو یہ نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نیا بجٹ بنانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی خود مختاری کو ختم نہ کریں، جو ملک معاشی طور پر غلام ہوجاتا ہے، وہ کالونی بن جاتا ہے وہ سرحدی قبضے سے زیادہ ظلم ہے۔ آپ ہمیں معاشی طور پر غلام کر رہے ہیں۔ کیا یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت آگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننس دو ڈھائی سال پہلے ایکسپائر ہوا ہے، جس کو آپ رینیو نہیں کر سکتے۔ جس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ نے سٹیٹ بنک کو قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا ہے یا بیچ دیا ہے لیکن آپ کہتے ہیں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی کی وجہ سے یہ کرنا پڑا۔ جب 2018ء میں آپ دودھ اور شہد کی ندیاں بہانے کے نعرے لگا رہے تھے تو اس وقت آپ کے ہماری اور پی پی پی کی بیلنس شیٹ تھی۔ اس کو دیکھتے ہوئے پھر وعدے کیے جو اس حکومت کی ناکامی ہے۔ پچھلے ساڑھے تین سال جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسا ہے۔ آپ نے عوام پر ظلم کیا ہے اور آج مزید ظلم کرنے جارہے ہیں۔ لیکن آپ دودھ سے استثنی بھی واپس لے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کے رہنما نے سپیکر قومی اسمبلی سے کہا کہ آپ کی رولنگ غیرآئینی ہے۔ آپ آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اس ایوان کو مذاق نہ بنائیں، پاکستان کے عوام کا کچھ خیال کریں۔ ہمارے ملک میں پہلے بھی 16دسمبر کو قیامت ٹوٹی تھی، جب سقوط ڈھاکا ہوا تھا۔ آج پاکستان کا معاشی سرنڈر ہورہا ہے۔ یہ اسمبلی اس نام سے یاد کی جائے گی کہ ہم نے پاکستان کا معاشی سرنڈر کیا تھا۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ اپوزیشن کے صرف تین ممبران نے مخالفت کی۔ یہ نریندرامودی کو گھر پر بلانے والے ہیں یہ لوگ قومی سلامتی کی بات کرتے اچھے نہیں لگتے یہ حکومت کو کیا گھر بھیجیں گے انہوں نے ورلڈ اکنامک فورم سمیت عالمی مالیاتی ادارے ہماری تعریف کرتے ہیں۔ 10 سال میں ایک روپے کا ترقیاتی بجٹ یہاں منظور نہیں کروایا گیا تھا۔ یہ ایکسپائرڈ سیاستدان ہیں۔ ان کی تقریریں سننا کیا ہم پر لازم ہے۔ مولانا کی پارٹی والے کے پی رزلٹ کی بات کریں تو اچھی بات ہے۔ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی اے این پی تینوں ملکر صرف نو سیٹیں جیت سکے۔ ایوان میں قرارداد منظور کی جائے کہ ان تین جماعتوں کو دفنانے کا چالیس یوم کا سوگ منایا جائے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ معاشی خود مختاری بیچی جا رہی ہے۔ اسد عمر نے کیا خواجہ آصف کے کسی سوال کا جواب دیا، جو ترامیم آئی ہیں ان پر ایوان میں بحث کرائیں گے، حکومت کو معلوم ہوگیا کہ عوام اس کے ساتھ نہیں، حکومت عوام سے انتقام لینا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے طعنوں اور الزامات میں ساڑھے تین سال ضائع کردیے، حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوچکی، جب پی ٹی آئی انتخابات میں عوام کے ہتھے چڑھے گے تو وہ ان کو دن میں تارے دکھائیں گے۔،ساڑھے تین سال میں پٹرول، بجلی اور گیس کی اشیا کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا،سپیکر ایوان کے کسٹوڈین ہیں، خواہش تھی وزیر خزانہ قیمتوں میں کمی اور ریلیف کیلئے ایوان میں آتے،شاہ محمود قریشی اپنے مریدوں کے پاس تو جاسکتے ہیں۔ ووٹرز کے پاس نہیں جاسکتے،جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما مولانا اسعد محمود نے کہا کہ حکومت کی شکست نوشتہ دیوار ہے۔ خیبر پی کے کی عوام نے آپکی پالیسیوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کو مسترد کیا اس پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ آپکی پوزیشن بھی آپکے علاقہ میں کوئی اچھی نہیں، میں مولانا آپکو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ غلط بیانی کررہے ہیں۔ مولانا آپکو آئندہ پتہ چل جائے گا مولانا اسعد محمود نے کہا کہ آج کی کارروائی اور گزشتہ اجلاس میں جو آپکی کرسی کا کردار رہا اس پر اعتراض ہے۔ آپکی کیا مجبوری ہے کہ ایوان کو متنازع بنایا جارہا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث تباہ حالی ہوئی ہے۔ اسد عمر صاحب، پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسیاں درست تھیں تو آپکو وزارت سے کیوں ہٹایا گیا۔ آئی ایم ایف کے بائیکاٹ والے سٹیٹ بنک کی خود مختاری دا ئوپر لگا رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے تقریر شروع کی تو اپوزیشن کی طرف سے کورم کورم کی آوازیں لگانا شروع کر دیں تو سپیکر قومی اسمبلی نے ن لیگ کے رکن اسمبلی برجیس طاہر کو مائیک دینے سے پہلے ہی قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ 31دسمبر دن 11بجے تک ملتوی کر دیا۔ وفاقی وزارت خزانہ نے قومی اسمبلی میں جمع تحریری جواب میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں 37ارب 85کروڑ ڈالرکے غیر ملکی قرضے لیے ہیں اور ایک ارب ڈالر گرانٹس کی صورت میں ملے۔ جواب میں کہا گیا کہ اسی عرصے کے دوران 29ارب 81کروڑ ڈالر قرضوں اور سود کی واپسی کی مد میں ادا کیے۔ وزارت خزانہ نے کہا کہ سابق دور حکومت میں پانچ سال کے دوران 49ارب 76کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضے لیے گئے اور اس وقت پاکستان کے ذمہ مجموعی مقامی و غیر ملکی قرض 414کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ستمبر 2021ء تک مجموعی مقامی قرضوں کا حجم 264کھرب روپے تک پہنچ گیا تھا اور غیر ملکی مجموعی قرضے 150کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
اشیاء مہنگی
اسلام آباد (عترت جعفری ) حکومت کے پیش کردہ فنانس بل میں غیر معمولی اقدامات موجود ہیں، انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 216کے تحت پاکستان بھر میں گریڈ 17سے گریڈ 22تک کے افسران کی جانب سرکاری عہدے کا استعمال کرتے ہوئے حاصل کئے جانے والے غیر قانونی فوائد اور ان کے اپنے نام اور ان کے گھر کے افراد یا زیر کفالت افراد جو ان کی اس اضافی آمدن سے مستفید ہو رہے ہیں اور ان کے بینیفشل آنرز ہیں کے ان کے اثاثہ جات کی تحقیقات کیلئے ایف بی آر نیب کے خدمات حاصل کرے گا۔ ملک میں گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بڑھا دیا گیا۔ اپنی آمدن اور حسابات چھپانے کی کوشش کے حامل افراد کی طرف سے نت نئے اکاؤنٹ کھولنے کے سد باب کے لئے بینک اکائونٹس کی تفصیلات بینکوں سے طلب کی گئی ہیں، پاکستان میں ماس ٹرانزٹ بنانے کیلئے چائنا ریلوے کارپوریشن کی جانب سے منگوائے جانے والے سامان، جرمن ڈیویلپمنٹ ایجنسی کی جانب سے سپلائی کی جانے والی امدادی اشیائ، صنعتی پلانٹس اور مشنری و آلات، 25ویں ترمیم کے بعد فاٹا کے ایجنٹوں کو بجلی کی فراہمی، درآمدی سٹیل بلٹس، انگوٹس، ری رولڈ وفائلز، اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی، گوادر انٹرنیشنل ٹرمینل کمپنی، گوادر فری زون کمپنی، اور ان کے سب کنٹریکٹرز کی جانب سے منگوائی جانے والی اشیائ، چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی، پلاسٹک سے بنی ہوئی کیپ، ایس ایم ڈی اور ایل ای ڈی فٹنگ سمیت، پی وی موڈیولز، کارڈئیک ایجیوگرافی مشین، ٹنل فارمنگ ایکویپمنٹس پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر کے 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائدکر دیا گیا ہے۔ افغانستان سے سبزیوں اور پھلوں کی درآمدات پر جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی۔ جن اشیاء کی لوکل سپلائی پر 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ دستیاب رہے گی ان میں زندہ حلال مویشی اور زندہ مرغیاں، پیکٹوں میں بند بکری، بھیڑ، مرغی کا گوشت ، مچھلی، پودے، ناشتے میں استعمال ہونے والے دلیہ اور سیریلز، سبزیاں، پھل، گنا، چوزے نکالنے کیلئے انڈے، نان کمرشل فرٹیلائزر، اندرون ملک تیار کردہ لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، نوٹ بک، نیوز پیپر شامل ہیں۔ ڈیجیٹل فارم میں فروخت ہونے والے قرآن پاک، اخبارات اور جرائد کیلئے سپلائی ہونے والی کاغذ، نیوز پرنٹ، نئے کرنسی نوٹس، بینک نوٹس، سٹاک مارکیٹ کے حصص، اور پرائز بانڈ کی سپلائی، سونے کے پلیٹس، ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے ڈیکسٹروس اور سیلین انفیوژن سیٹس، عالمی امدادی اداروں کو سپلائی کی جانے والی اشیائ، غیر ملکی امداد کے عوض فراہم کی جانے والے اشیائ، قدرتی آفات کے بعد پاکستان میں موصول ہونے والی امدادی اشیائ، مختلف درآمدی اشیاء کے پاکستان میں درآمد کئے جانے والے نمونہ جات(سیمپل)، وفاقی، صوبائی اور ضلعی ہسپتالوں کو موصول ہونے والی عطیات کی مشنری اور سا مان، پانچ سال تک پرانے کمبائنڈ ہارویسٹرز، مچھلیوں کی خوراک، ڈیری فارمز میں استعمال ہونے والے بڑے ایگزاسٹ فین، مویشیوں کے نسل کو بہتر بنانے کیلئے درآمد کئے جانے والے بوائن سیمپلز، ٹیکنیکل لٹریچر ، پمفلٹس، بروشرز، اخبارات کو سپلائی ہو نے والے کاغذ اور لنڈے کے کپڑوں پر 17فیصد جی ایس ٹی عائد کر دیا گیا۔ ملک میں تیار ہونے والی الیکٹرک گاڑیوں، روڈ ٹریکٹرز، سیمی ٹریلرز، الیکٹرک بسوں، الیکٹرک تھری وہیل رکشہ، تھری وہیل الیکٹرک لوڈر، الیکٹرک ٹرک، الیکٹرک موٹر سائیکل پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے کم کر کے1فیصد کر دی گئی ہے۔ ایک نئی ترمیم کے تحت ملک میں الیکٹرانک فائلنگ اور آن لائن مانیٹرنگ کے نظام کے آغاز کی نگرانی کیلئے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ڈیجیٹل انوائسنگ اینڈ انالسسز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر اس کے سربراہ ہوں گے ان کی معاونت ملک بھر میں ایڈیشنل ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر اور دیگر حکام کریں گے۔ سیکشن 33میں کی گئی ایک نئی ترمیم کے تحت الیکٹرانک مانیٹرنگ کے عمل میں سیگریٹ، سیگریٹ کے پیکٹ اور سیگریٹ کے سٹاک کی مکمل الیکٹرانک نگرانی اور مارکیٹ میں ان کی سپلائی کی نگرانی ہوگی جہاں سے سمگل شدہ سگریٹ یا جعلی سگریٹ بنائے جا رہے ہوں گے یا غیر قانونی سگریٹ کا ذخیرہ دستیاب ہوگا اس جگہ کو بحق سرکار سر بمہر کرنے اور سرکاری تحویل میں لینے کے ان لینڈ ریونیو افسران کو اختیارات تفویض کر دئے گئے ہیں۔ اس کیلئے ان لینڈ ریونیو میں دستیاب اختیارات استعمال کئے جائیں گے۔ تن سازی کی دواؤں میڈی کمینٹس کے نام سے پکارا جاتا ہے پر جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر کے اس پر 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ملک میں درآمد ہونے والے خام پٹرولیم آئل کی درآمد پر بھی جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے۔ 1800سی سی سے زائد ہائی برڈ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمدات اور لوکل سپلائی پر 12.5 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ 200امریکی ڈالر سے زائد اور 350امریکی ڈالرتک کی مالیت کے موبائل فون پر 1720روپے کا فکس ٹیکس ختم کر کے17فیصد جنرل سیلز ٹیکس 500امریکی ڈالر سے زائد مالیت کے موبائل فون پر 9270روپے کے فکس ٹیکس کو ختم کر کے 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ملک میں مختلف بینکوں میں اکائونٹ رکھ کر اپنی آمدن اور فروخت کے حسابات چھپانے والے کاروباری افراد کی جانب سے ہر ماہ مختلف بینکوں میں کھولے جا رہے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بینکوں سے طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہر ان لینڈ ریونیو کمشنر اپنے علاقے کے بینکوں سے ان اکائونٹس کی فہرست مانگ سکے گا۔ انکم ٹیکس کے فرسٹ شیڈول مین ایک ترمیم کے تحت ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ کی سرمایہ کاری کے منافع پر انکم ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی ہے تاہم دیگر شعبوں مین سرمایہ کاری پر حاصل ہونے والے ڈیویڈنڈ پر 35فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ غیر ملکی مالکان کی ملکیتی شپنگ کمپنیوں اور ائر لائین کمپنیوں کی آمدن پر انکم ٹیکس کی شرح 10فیصد سے بڑھاکر 15فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملک میں امراء کی جانب سے گاڑیوں میں سرمایہ کاری کر کے فوائد اٹھانے کی حوصلہ شکنی کیلئے 1000سی سی تک کی گاڑیوں پر 1لاکھ روپے، 1001سی سی زائد لیکن 2000سی سی تک کی گاڑیوں پر 2لاکھ روپے، 2001 اور اس سے زائد انجن قوت کی گاڑیوں پر 4لاکھ روپے انکم ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005میں متعارف کروائی گئیں نئی ترامیم کے تحت 1001 سی سی سے لیکر 1799سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 5فیصد سے بڑھاکر 10فیصد کر دی گئی ہے۔ 1800سی سی سے زائد اور 3000 تک کی گاڑیوں پر ایکسائز ڈیوٹی 25 فیصد سے بڑھاکر 30فیصد کر دی گئی ہے۔ 3001 سی سی اور اس سے زائد انجن قوت کی گاڑیوں کی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 30فیصد سے بڑھاکر 40فیصد کر دی گئی ہے۔ 1001سے سی سے زائد لیکن 2000سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 2.5فیصد سے بڑھاکر 5فیصد کر دی گئی ہے۔ 2001 سی سی اور اس سے زائد انجن قوت کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی5فیصد سے بڑھاکر 10فیصد کر دی گئی ہے۔ درآمدی ڈبل کیبن گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 25 فیصد سے بڑھاکر 30فیصد کر دی گئی ہے۔ ملک کے اندر تیار ہونے والی ڈبل کیبن گاڑیوں کی درآمد پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 7.5فیصد سے بڑھا کر 10فیصد کر دی گئی ہے۔