یہ سچ ہے کہ جوں جوں دنیا جدت پسند ہوتی جا رہی ہے انسان اپنی اخلاقی قدریں بھولتا جا رہا ہے ، دنیا کی اکثریت لبرزم کی یعنی شخصی آزادی کی حامی ہوتی جا رہی ہے اور اس شخصی آزادی کے لبادہ اڑنے کے بعد یہی لبرزم پسند دنیا اس لبرزم پرستی کے بھیانک اثرات کے نتائج بھی مسلسل بھگت رہی ہے۔۔۔ ہمارا دین اسلام ہے جو دینِ فطرت ہے اور ہمارا دین حقوق العباد کو انتہاء اہمیت دیتا ہے ، بلاشبہ ہمارے مذہب میں مرد و زن دونوں کے حقوق برابری سے موجود ہیں۔ رسول ? کا فرمان ہے کہ " ہر دین کا ایک امتیازی وصف ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔ "
دینِ اسلام میں شرم وحیا کو انتہاء اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے میں شرم و حیا کو عورت کا زیور کہا گیا ہے اور عورت کی حیا کو مرد کی غیرت سے مشروط کیا گیا ہے۔۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اسے تلوار کو اس سے موڑے بغیر (دھار کو دوسری طرف کئے بغیر سیدھی تلوار) ماروں گا۔ رسول اللہ ? تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا ’’ تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم ! میں اس سے بھی زیادہ باغیرت ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے اللہ نے غیرت کی وجہ سے ہی ان تمام فواحش کو، ان میں سے جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں سب کو حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ سے زیادہ کوئی شخص غیور نہیں نیز اللہ سے زیادہ کسی شخص کو معذرت پسند نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے ہیں اور اللہ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں، اسی لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے‘‘۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ان چیزوں میں سے جو لوگوں نے پہلی نبوت کے کلام میں حاصل کی ہیں یہ بھی ہیجب تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر. " اس حدیث مبارکہ سے علم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں شرم و حیا کو کتنی اہمیت حاصل ہے اور فحاشی کو گناہِ کبیرا کہا گیا ہے۔فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کا مشہور قول ہے کہ ‘‘جس قوم کو تباہ و برباد کرنا ہو اس قوم کے جوانوں میں فحاشی و عریانی پھیلادو۔’’ یہ لمحہئ فکریہ ہے کہ موجودہ دور میں یہی کیا جا رہا ہے دشمنانِ اسلام لبرزم کے نعرے لگا لگا کر ہماری قوم کو بیراہروی و بیغیرتی ، فحاشی و عریانیت کی طرف لے جا رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا ہر طبقہ اور خصوصیت سے نوجوان طبقہ بڑی تیزی سے فحاشی کا شکار ہو رہا ہے۔ ہماری قوم کے صاحبِ حیثیت و صاحبِ ثروت طبقے میں بھی یہ فحاشی تیزی سے سرایت کرتی جا رہی ہے اور اونچے ایوانوں پہ برجمان اور سرمایہ دار طبقہ کھلے عام بے دریغ قومی خزانہ اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر فحاشی کے اڈوں میں بہا رہا ہے ،افسوس کہ یہ گنہگار طبقہ دشمنانِ اسلام کی ان چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہے اور اپنی وقتی عیاشی کے لیے اپنی آخرت کو قربان کرنے میں تلا ہوا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں، جب دشمنانِ اسلام نے فوج اور نوجوان نسل میں فحاشی پھیلانے کے لئے نوجوان اور حسین عورتوں کا سہارا لینا شروع کیا تو صلاح الدین ایوبی اپنی فوج کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی ان کفار کو ڈھونڈنے نکل پڑا اور چند دنوں کی سخت محنت کے بعد اس نے اپنے فوجی جاسوسوں کی بدولت صیہونی جاسوسوں کو پکڑ لیا اور اس کے بعد ان دشمنانِ اسلام کو اپنے دربار میں حاضر کر کے دربار میں موجود اپنے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ہر قوم کی طاقت اس کا اچھا یا برا کردار ہوا کرتا ہے، دشمن ہماری اصل کمزوری جان چکا ہے ،"
موجودہ دور میں بھی بالکل یہی صورت حال ہے جس سے ہماری پاکستانی قوم نبرد آزما ہے۔ اب یہ ضروری نہیں رہا کہ دشمنوں کو شکست ہتھیار سے ہی دی جائے بلکہ اب یہ ملک دشمن خارجی عناصر سامنے کی جنگ کبھی نہیں کریں گے بلکہ دشمن اب ہمارے اخلاقی و ایمانی کردار پر حملہ آور ہو گا اور ہو رہا ہے۔ اب یہ ہم پہ منحصر ہے ہم حق و باطل کی اس جنگ میں کس کا ساتھ دیتے ہیں۔ خارجی عناصر ہمیں اب اخلاقی اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے شکست دینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ ہرحربہ استعمال کرتے ہوئے ہمارے ایمان کو کمزور کرکے ہمیں تباہ و برباد کرنے کی کوشش کریں گے، اس کی حالیہ مثال موجودہ دور میں ہماری قوم میں ہم جنس پرستی اور زمانہ جہالت میں رائج روایات جس میں بیوی کو پیش کرنا جیسی جہالت اور ابلیسی فعل شامل ہے۔
امام احمد نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول ? نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں پر اللہ تعالی نے جنت حرام کردی ہے: شراب کا عادی، والدین کا نافرمان، اور دَیّْوث یعنی وہ مرد جو اپنے اہل خانہ م?ں زناکاری د?کھ? کر اس پر خاموش رہے۔ ایک اور جگہ حضور? کا ارشاد ہے کہ
"دنیا ساری کی ساری متاع ہے اور دنیا کی سب سے بہترین پونجی نیک بیوی ہے۔ "
خدا کے لیے بحیثیتِ امتِ رسول? اپنے دین کو ایسے رسوا نہ کیجیے۔
مسلم جوڑے فحاشی سے بچیں کیونکہ یہ گناہِ کبیرا ہے۔
افسوس صد افسوس مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج ایسے کام بھی ہونے لگے ہیں جس کا تصور صرف زمانہئ جہالیت میں ہی کیا جا سکتا تھا۔۔۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر طرح کی فحاشی کے خلاف پوری پاکستانی قوم اٹھ کھڑی ہو اور آواز بلند کرے اور حکومتِ وقت اپنی عوام کا بھرپور ساتھ دے۔
قرآن پاک میں ہے کہ ترجمہ: ’’قسم ہے زمانے کی کہ ہر انسان بڑے خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، اور انہوں نے اچھے کام کیے، اور ا?پس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی، اور ا?پس میں تاکید کرتے رہے صبر وتحمل کی۔‘‘
اللہ ہم پاکستانیوں کو شیطان کا چیلا بننے سے بچائے اور راہِ مستقیم پہ چلائے۔آمین ثم آمین یارب العالمین
فحاشی کا سیلاب اور وطنِ عزیز
Dec 31, 2022