میں نے بے نظیر بھٹو کو کیسا پایا؟

Dec 31, 2022


ہم اپنی زندگی میں ہزاروں لوگوں سے ملتے ہیں، لیکن صرف چند ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہماری کی زندگی پر لازوال تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔بے نظیر بھٹو ایک ایسی ہی شخصیت تھیں جو آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرتی رہیں گی کیونکہ تاریخ انہیں ہر دور کی سرکردہ اور بااثر خواتین لیڈروں میں سے ایک کے طور پر یاد کرے گی، جنہوں نے ایک شاندار مثال قائم کی۔ وہ صحیح معنوں میں بے نظیر تھیں، خوبصورتی، ہوشیاری ، فصاحت اور بلاغت میں بے مثال تھیں۔ ان کے ساتھ کام کرنا ایک اعزاز کی بات تھی۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ وابستگی کے دوران مجھے ذاتی طور پر کچھ تاریخی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔بے نظیر بھٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت مغرور تھیں۔لیکن دل کی گہرائیوں میں وہ بہت ہی مہربان تھیں۔وہ انتقام لینے پر یقین نہیں رکھتی تھیں اور انہوں نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ دو مرتبہ وزیر اعظم بنیں لیکن ان کے دونوں ادوار میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔وہ اکثر کہا کرتی تھیں’’ 99 فیصد محنت ہے اور 1 فیصد تحریک ہوتی ہے"۔اپنے والد کے عدالتی قتل کے بعد، بے نظیر بھٹو نے سخت مشکلات، اذیتیں، قید و بند سمیت اور کیا کچھ تھا جو انہوں نے برداشت نہیں کیا۔اس قدر کم عمری میں ناموافق حالات اور مشکلات نے بے نظیر کی سیاسی بصیرت کو مزید پختہ کیا۔ اپنی ٹیم کا انتخاب کرتے وقت انہوں نے وفاداری کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔شدید محنتی ہونے کی وجہ سے وہ صبح 2 بجے سے پہلے نہیں سوتی تھیں۔میں جب بھی کراچی جاتا، مجھے رات 8 بجے بلایا جاتا اور 2 بجے تک ان کے پاس رہتا۔ وہ سیاست میں اس قدر مگن رہتی تھی کہ وہ اپنے دوستوں کے علاوہ صحافیوں، سیاست دانوں کو بھی مدعو کرتیں اور ٹیلی فون کالز اٹینڈ کرتے ہوئے بھی کام کرتی رہتیں۔مجھ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار کہا، ’’تم جیسا معصوم شخص سیاست میں کیسے آسکتا ہے؟‘‘ جب میں نے ان سے پی پی پی میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں، ’’اب میری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ میں نے ہمیشہ وفادار اور مخلص سیاسی ساتھیوں کی کمی محسوس کی۔"مجھے جو privileges حاصل تھیں ان میں سے ایک محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملنے کے لیے اجازت لینے سے استثنیٰ تھا کیونکہ انہوں نے مستقل ہدایات جاری کررکھی تھیں کہ پرویز صالح کو مناسب پروٹوکول کے ساتھ لایا جائے۔
میں واحد شخص تھا جسے ان کی شادی کی ڈھولکی کی رسموں میں مدعو کیا گیا۔ایک بار، ایک سیاسی گفتگو کے دوران، انہوں نے میرے ساتھ اس وقت اونچی زبان میں بات کی جب میں قومی محاذ آزادی (ایم آر ڈی کی جزوی جماعتوں میں سے ایک) کا قائم مقام چیئرمین تھا۔ میں نے جواب دیا اور ان سے کہا کہ میں آپ کی پارٹی کا رکن نہیں ہوں، اس لیے آپ مجھ سے اس لہجے میں بات نہ کریں۔ آپ اپنی پارٹی /مملکت میں ملکہ ضرور ہوں گی مگر میں بھی اپنے چھوٹے سے جزیرے کا شہزادہ ہوں اور یہ میرے لیے کافی ہے۔ میں اس وقت مارکسسٹ، لیننسٹ اور ماؤزے تنگ مکتب فکر کا پرجوش پیروکار تھا۔ یہ سن کر بے نظیر بھٹو کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور جواب دیا ’’میں نے کیا کہا؟ میں نے کیا کہا ہے؟ یہاں پاکستان میں لوگ مجھے دیوی کی طرح سمجھتے ہیں حالانکہ میں صرف ایک عورت اور انسان ہوں۔ انہوں نے اپنے حد سے زیادہ خوشامدانہ رویوں سے میرا مزاج اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ بعض اوقات آکسفورڈ اور کیمبرج کے گورے /غیر ملکی بھی پاکستان کے وزیر خارجہ کی بیٹی ہونے کے ناطے اکثر میرے ساتھ ایسا ہی برتائو کرتے تھے، اور یہ چاپلوسی اس وقت بڑھ گئی جب وہ وزیر اعظم بنیں۔ "کم از کم، ایک شخص ہے، جو میرے منہ پر سچ بولتا ہے، اسی لیے مجھے تم پر بھروسہ ہے"۔بے نظیر بھٹو نے میری سفارشات/نئے عہدیداروں کے نام مانگے، کیونکہ وہ اس وقت پنجاب میں پارٹی کی تنظیم سے مطمئن نہیں تھیں۔ اگرچہ یہ اصول تھا کہ کسی شخص کو اس وقت تک پارٹی کا عہدے دار نہیں بنایا جا سکتا جب تک کہ وہ کم از کم چھ ماہ کے لیے پارٹی میں شامل نہ ہو۔ انہوں نے تمام قواعد و ضوابط کے خلاف مجھے پی پی پی پنجاب چیپٹر کا نائب صدر مقرر کر دیا۔بے نظیر بھٹو کے ساتھ میری وابستگی میری زندگی کی سب سے اہم خصوصیت رہی ہے اور رہے گی۔ وہ عام آدمی کے دل و دماغ میں رہتی ہیں کیونکہ ان کی میراث زندہ ہے اور اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ان کا نام بھی ایک کبھی نہ ٹوٹنے والی کڑی ہے جو پارٹی کو عوام سے جوڑتی ہے۔

مزیدخبریں