ڈاکٹرخلیل طوقار:ترکِ غمزہ زن

Dec 31, 2022


پاکستان اور ترکی کے تعلقات گرم جوشی پرمبنی ہیں ،احباب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ برصغیر پاک وہندمیں تحریک خلافت کے عوامل کیاتھے،ہمارے ہاں نمازجمعہ کے خطبے میں ترکی کے سلطان کا باقاعدہ نام لیاجاتا تھا۔چاروں طرف علی برادران کاچرچا تھا،ایک شعرتو زبان زدِ عام تھا: 
بولیں اماں محمدعلی کی 
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
اور پھرمولانامحمدعلی جوہرنے واقعی خلافت پر جان دے دی ،عالمی منظرنامے میں آنے والی تبدیلیوںکے باوجود پاکستان اورترکی کا باہمی جوش وخروش ابھی تک باقی ہے ،علمی اورادبی سطح پراردو کاقاری محمدعاکف ایرصوئے،یونس ایمرے، فضولی، ندیم، ناظم حکمت اور نجیب فاضل کے ناموں سے واقف ہے کہ انکی تخلیقات کے تراجم ہمارے ہاں اردو میں ہوچکے ہیں۔ غور کیا جائے تو سیاسی ،مذہبی اور ثقافتی رشتوں کے ساتھ ساتھ اب ادبی اورلسانی تعلقات کا بھی ایک نیازاویہ سامنے آیا ہے۔ یہ رشتہ اردو اور ترکی ادب کے باہمی گہرے روابط کا آئینہ دار ہے، جاپان، مصر، جرمنی، چین، ایران اور دیگرممالک کی طرح گزشتہ چنددہائیوں میں یورپ اورایشیا کے براعظموں کوملانے والے ملک ترکی میں بھی اردو زبان وادب کوسیکھنے کا چلن عام ہواہے۔ 
ترکی کی استنبول یونیورسٹی،انقرہ یونیورسٹی اور سلجوق یونیورسٹی میں اردو کے شعبہ جات موجود ہیں۔یہ جامعات مقامی ترکوں کو اردو کی تدریس دینے کیلئے سرگرم ہیں اسکے علاوہ پاکستان میں بھی ایسے سکول موجود ہیں جہاں ترکی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔استنبول یونیورسٹی کا شعبہ اردو تاریخی حیثیت کا حامل ہے،یہاں اردوکی تدریس سے وابستہ ترک اساتذہ میں ایک اہم نام ڈاکٹر خلیل طوقار کاہے،ڈاکٹر صاحب کی پاکستان کے تہذیب وتمدن سے گہری وابستگی ہے،مجھے وہ ترک سے زیادہ پاکستانی لگتے ہیں،یوں بھی پاکستان سے ان کا ایک رشتہ یہ بھی ہے کہ انکی اہلیہ پاکستان کی بیٹی ہیں،ثمینہ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں اردو کے معروف استاد ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کی صاحب زادی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ترکی میں خلیل طوقار کے گھرمیں ترکی کے ساتھ اردو اور پنجابی زبان بھی بولی جاتی ہے۔ان کا گھر ایک منی پاکستان ہے،چاروں طرف سے پاکستانی کلچرکی خوشبو سے مہکتا ہوادونوں برادر ملکوں کی مشترکہ قدروں کا مرکز ۔
نسلی اعتبار سے ترکوں کومشرقی اور مغربی شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔مشرقی ترک نسلی طور پر افغانستان ،قزاقستان،ازبکستان اور کرغیزستان سے تعلق رکھتے ہیں،مغربی ترک نسلی اعتبار سے آذربائیجان، قبرص، بلغاریہ، شام اور یونان سے وابستہ ہیں۔خلیل طوقار بلقان سے تعلق رکھنے والے ترکوں کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے ہیں،اس قوم کو ”اولادِ فاتحان“ کے نام سے یادکیا جاتا ہے۔
 پاکستان سے انکی روحانی وابستگی کا آغاز اس وقت ہواجب ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار استنبول یونیورسٹی میں اردو کے استاد کی حیثیت سے تشریف لائے۔ ذوالفقارصاحب کی آمدکلچرل ایکسچینج کی پالیسی کے تحت ہوئی تھی۔انھی دنوں خلیل بھی اردو کی محبت میں اردو کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بے اختیار کھنچے چلے آئے،انھوں نے اردو اختیاری کے ساتھ گریجویشن میں امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی،اب انکے سامنے دوآپشن تھے،وہ وزارت خارجہ میں اعلیٰ عہدہ بھی حاصل کرسکتے تھے لیکن انھوں نے دوسرے آپشن کے تحت اردو کی تدریس کے شعبے کواختیارکیا۔ایم اے اردو کرنے کے بعدانھوں نے ”برصغیرمیں فارسی اوراردو شاعری اوربہادرشاہ ظفرکے دور کے شعرا“کے عنوان سے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ان دنوں ڈاکٹرخلیل طوقار ترکی میں پاکستان اور اردو کے نمائندے ہیں۔
 شعبہ اردو سے کی سربراہی کے دوران میں انھوں نے پاکستان اوراردو کے حوالے سے متعدد کانفرنسیں کروائیں۔ مختلف سیاسی ،ادبی اور ثقافتی موضوعات پر لیکچر دئیے۔ان کی شخصیت کا ایک پہلو دنیابھرمیں ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانا بھی ہے۔مثال کے طور پر ترکوں کو مسئلہ کشمیر سے متعارف کروانے کیلئے انھوں نے ترکی میں تسلسل کے ساتھ مختلف پروگرام کروائے، مختلف قومی اخبارات میں کالم لکھے،اس موضوع پرلکھتے رہنے کی وجہ سے انھیں اب ہندستان کاویزا نہیں ملتا حالانکہ اس سے پہلے وہ متعدد دفعہ وہاں کا دورہ کرچکے تھے،اسکے باوجود خلیل طوقار نے ہرفورم پر کشمیر اور اہل کشمیر کا کیس بڑی کامیابی کے ساتھ لڑا۔ڈاکٹر خلیل کو انھی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ¿ امتیاز سے بھی نوازا گیا ہے۔
ڈاکٹر خلیل طوقار کی اردو،ترکی اور انگریزی میں لکھی گئی تحریریں پاکستان اورترکی کے درمیان رابطے کااہم ذریعہ ہیں،وہ اردو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ حمد، نعت،نظم اور غزل ان کی پسندیدہ اصناف ہیں۔انھوں نے ترکوں کو اردو زبان کی گرامرسمجھانے کیلئے مختلف کتابچے بھی لکھے ہیں، اسکے علاوہ دونوں زبانوں کے ادب کے فن پاروں کے خوب صورت تراجم بھی کیے ہیں جن میں علامہ اقبال کی مشہور نظموں ”شکوہ “ اور ”جواب شکوہ“کا ترجمہ معروف ہے ،ڈاکٹر خلیل طوقار کا ایک کارنامہ ترکی سے ”ارتباط“ کے نام سے ایک ادبی مجلے کا اجرا بھی ہے۔وہ پاکستانی جامعات کے اردو رسائل کی مجلس مشاورت میں بھی شامل ہیں،یہاں اردوزبان وادب کے حوالے سے انکی خدمات کی تفصیل بیان کرنے کا محل نہیں۔اس لیے دوستوں کیلئے انکی ایک نعت شریف کے دواشعار پیش خدمت ہیں:
زمیں عاشق،زماں عاشق،سماکا ہرملِک عاشق
تری ہستی ہے ہستی ،تری امت تری عاشق
چلا آﺅں ترے در تک محبت کی فضا پاکر
ترے در کی بنوں مٹی ،ترے در کاخلیل عاشق
ڈاکٹر خلیل طوقار ایک ہوش مندقوم پرست ہیں،ان کی محبت اورسوچ کادائرہ بھی بہت وسیع ہے۔پاکستان اورترکی کی ثقافتوں کو قریب لانے میںانھوں نے نمایاں کردار ادا کیاہے۔پاکستان میں بھی انکی اردو کے حوالے سے علمی وادبی خدمات کاہرسطح پراعتراف کیا گیا ہے۔حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کے ہر دلعزیز سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک کی سرپرستی میں معروف شاعر اور محقق ڈاکٹراشرف کمال نے ڈاکٹر خلیل طوقار کے فن اور شخصیت پر ایک عمدہ کتاب لکھی ہے۔ اس کالم کا محرک بھی یہی کتاب ہے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار علم وادب کے ”ترک ِ غمزہ زن“ہیں ہم انھیں سمرقند اور بخارا تو نہیں دے سکتے لیکن اس کالم کے ذریعے پاکستان اوراہل پاکستان کی طرف سے شکریہ تو ادا کر سکتے ہیں۔ 
٭....٭....٭

مزیدخبریں