بچوں کا ایسے خیال رکھیں‘ گورنر سندھ نے نومولود بیٹے کو نہلانے کی ویڈیو وائرل کر دی۔
ٹیسوری صاحب! اپنے بچوں کا تو ہرکوئی اسی طرح خیال رکھتا ہے‘ آپ نے کوئی انوکھا کام کرکے نہیں دکھایا‘ بات تو تب ہے جب آپ ان بچوں کا خیال رکھیں جو تھر اور اسکے مضافات میں زندگی کی ”پسوڑی“ میں پڑے ہوئے ہیں۔ نہانا تو کجا‘ انہیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ وہ مشکل سے ایک وقت کی روٹی کھا پاتے ہیں۔ سردی کے اس ٹھٹھرتے موسم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں۔ اشرافیہ کیلئے اپنے بچوں کی بہترین نگہداشت اور انکی ضروریات پوری کرکے دوسروں کو نصیحت کرنا آسان ہوتا ہے‘ جو مصیبت زدہ اور سیلاب زدہ ہوں‘ اصل کام تو ان کا خیال رکھنا ہے۔ اگر قسمت نے آپ کو اعلیٰ منصب پر قوم کی خدمت کیلئے بٹھا ہی دیا ہے تو اپنے بچوں کی خدمت کرکے ویڈیو وائرل نہ کریں‘ قوم کے بچوں کا اس طرح خیال رکھ کر اسکی ویڈیو وائرل کرینگے تو آپ کایہ عمل دوسروں کیلئے بھی قابل تقلید ہوگا اور اسی میں اجر و ثواب بھی ہے۔ بے شک آپ شوق سے اپنے بچوں کو نہلا دھلا کر‘ تیل سرمہ لگائیں‘ قوم کو انکی ویڈیوز دکھائیں، یہ آپکے بچوں کا آپ پر حق بھی ہے لیکن اس منصب کی ذمہ داری بھی تو پوری کریں جس کی قوم آپ سے توقع رکھتی ہے۔ ہمارے حکمران طبقات کا یہی تو المیہ ہے کہ پچھلے 75 سال سے وہ ملک و قوم کے بجائے اپنی آسائشوں کیلئے اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ نہیں یقین تو وہ اپنا اور عوام کا موازنہ کرکے دیکھ لیں۔ فرق صاف ظاہر ہے۔
٭....٭....٭
عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم عمران خان کو اسمبلی میں بلا کر معاشی تباہی میںشریک کرنا چاہتی ہے۔
شیخ صاحب! آپکے بارے میں غالب گمان تو یہی تھا کہ آپ چونکہ سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں اس لئے پی ڈی ایم کی اس پیشکش سے اپنے لیڈر کو بھرپور فائدہ اٹھانے کا مشورہ دینگے تاکہ وہ اسمبلی میں بیٹھ کر معیشت کی بدحالی پر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکیں۔لیکن آپ کے اس بیان نے آپکی ساری سیاسی بصیرت پر پانی پھیر دیا ہے۔ جناب ملک کی معاشی تباہی میں جہاں آپکے لیڈر عمران نے حصہ ڈالا وہیں پی ڈی ایم نے بھی کسر پوری کرتے ہوئے اس کا انجرپنجر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ پی ڈی ایم ہی تھی جو اقتدار میں یہ دعویٰ کرکے آئی تھی کہ اسکے پاس بہترین اقتصادی ماہرین کی ٹیم ہے‘ وہ جلد ملک کو معاشی بحران سے نکال دیگی مگر معیشت کی جو حالت ہے‘ وہ آج سب کے سامنے ہے جس کے دگرگوں ہونے سے مہنگائی نے عوام کا جو حال کر دیا ہے‘وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ بلند بانگ دعوﺅں کے باوجود عوام کو رتی بھر ریلیف نہیں دیا جارہا‘ یوٹیلٹی بلوں میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے‘ موسم سرما میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ عذاب جان بنی ہوئی ہے۔ گیس کی تو بات ہی نہ کی جائے ۔ تو کیا ایسے میں آپکے لیڈر کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اسمبلی میں بیٹھ کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے۔ اول تو خان صاحب کو خود اسمبلی میں جا کر حکمرانوں کی خبر لینی چاہیے مگر خان صاحب کا وکھرے ٹائپ کا اندازِ سیاست ہے ‘ وہ اسمبلی کے بجائے گلی محلوں اور سڑکوں پر سیاست چمکاتے پھر رہے ہیں تاکہ عوامی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔ عدلیہ سمیت سارے سیانے انہیں اسمبلیوں میں بیٹھ کر سیاست کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں مگر خان صاحب ”میں نہ مانوں“ کے مصداق ایک ہی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جلاﺅ گھیراﺅ اور جنگ و جدل کی سیاست سے آج تک کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو پایا۔ امریکہ جیسی سپرپاور کو بھی کمزور ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بالآخر مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھنا پڑا۔ اور پھر خان صاحب تو خود اس کا عملی تجربہ کر چکے ہیں۔ 2014ءمیں وہ ملک کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیکر بھی نوازشریف حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے تو اب وہ کیسے اپنی اودھم مچانے والی سیاست سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لہٰذا شیخ صاحب ! آپ اپنے لیڈر کو اسمبلیوں میں جانے کا ہی مشورہ دیں تو بہتر ہے‘ معیشت کی تباہی کا ملبہ ان پر ہرگز نہیں پڑیگا۔
٭....٭....٭
وزیر داخلہ رانا ثناءنے کہا ہے کہ مسائل کا حل الیکشن نہیں‘ میثاقِ معیشت ہے۔ اب جو ہوگا آئین کے مطابق ہوگا۔
اگر آئین کے مطابق ہمارے ہاں سب کچھ ہوتا تو آج ملک کی حالت یہ نہ ہوتی۔ نہ ملک آئین کے مطابق چلایا جا رہا ہے اور نہ کسی معاملے میں آئین کی پاسداری ہوتی نظر آتی ہے‘ سب کچھ من مرضی سے ہی کیا جارہا ہے جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ آئین تو کہتا ہے کہ عوام کو سہولتیں دینا‘ انکے روٹی روزگار کا بندوبست کرنا ریاست کی ہی ذمہ داری ہے لیکن آج تک عوامی مسائل پر کسی نے آئین کی پاسداری نہیں کی۔ اب رانا صاحب فرما رہے ہیں کہ اب جو ہوگا آئین کے مطابق ہوگا‘ تو پہلے انہیں آئین کا یہ تقاضا پورا کرنا چاہیے تاکہ عوام کو روٹی روزگار مل سکے۔ اگر آئین کے مطابق انکی مراد حزبِ اختلاف سے نمٹنا ہے تو کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ آج تک کون سا کام آئین کے مطابق سرانجام پایا ہے؟ حکومت ہو یا اپوزیشن‘ دونوں ہی ایک دوسرے کیخلاف انتقامی کارروائی کرتے وقت آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ رہی بات میثاق معیشت کی‘ تو اس معاملے میں اپوزیشن حکومت ساتھ دے یا نہ دے‘ حکومت کو ازخود ہی معیشت کی بحالی کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ بقول حکومت،اسکے پاس بہترین اور تجربہ کار اقتصادی ٹیم موجود ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ معیشت کی کوئی ایک کل بھی اب تک سیدھی نہیں ہو پائی؟ اور ہاں! مسائل کے حل میں الیکشن کی بہت اہمیت ہے‘ بشرط اسکے نتیجے میںاقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے حضرات اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے بجائے عوامی مسائل کے حل کا عزم لے کر میدان میں آئیں۔
٭....٭....٭
وفاقی وزیر منصوبہ بندی ‘ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا‘ یہ بات کہنے والے دشمن ہیں۔
احسن اقبال صاحب کی یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا‘ لیکن تکنیکی بنیادوں پر دیکھا جائے تو ملک دیوالیہ ہوتا نظر آتا ہے۔شنید یہی ہے کہ ساحل سمندر پر کھڑے سبزی اور اناج کے کنٹینرز واپس چلے گئے کیونکہ ان سے مال اتروانے کیلئے پیسے نہیں تھے۔ ایک طرف حکمرانوں کے اللے تللے ختم نہیں ہو پا رہے ‘ دوسری جانب انکے دورے بھی معیشت پر بوجھ ثابت ہو رہے ہیں اور نتیجے میں اب تک صرف زبانی جمع خرچ ہی سامنے آرہا ہے۔ اگر کوئی ملک کے دیوالیہ ہونے کی بات کرتا ہے تو وہ ملک دشمن نہیں‘ بلکہ حقائق قوم کے سامنے لا رہا ہے۔ اور یہ حقائق لانے والے صرف حزب اختلاف والے نہیں‘ حکومتی اکابرین بھی ایسی خبریں سنا کر قوم کو خوف زدہ کرتے رہتے ہیں۔ بجائے ایک دوسرے کو ملک دشمن کہنے کے اگر اہلِ اقتدار ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں جو انکی ذمہ داری بھی ہے‘ تو اب بھی انکے پاس اتنا وقت ضرور ہے کہ وہ قوم کو ان بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ابھی تک اپوزیشن اور حکومت نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ہی سر جوڑے ہوئے ہیں۔