کچھ وقت ملک کے لئے بھی نکالیں!!!!!

پاکستان شدید مسائل کا شکار ہے،  ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے اور معاشی عدم استحکام بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادت مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے پر حملوں میں مصروف ہے۔ سیاسی قیادت کا زیادہ تر وقت صحت کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے  ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہے ۔  بالخصوص گزشتہ  گیارہ بارہ،ماہ کے دوران یا بارہ تیرہ ماہ کے دوران ملک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے ترقی کا سفر رکا ہوا ہے۔ ترقی تو بہت دور کی بات ہے پہلے سے موجود مسائل کو حل کرنا  ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جن لوگوں نے مسائل حل کرنے ہیں ان کے اپنے مسائل اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ان کے پاس اس ملک کو دینے کے لیے وقت ہی نہیں ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ سیاسی قیادت بہت مل بیٹھے 24 کروڑ لوگوں کے اس ملک کو بہتر کرنے اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہو جائیں لیکن انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ شاید کوئی تعمیری گفتگو ہوتی نظر آئے شاید کوئی بہتری کا پہلو نظر آئے شاید ہی کوئی اصلاح کی بات کرے۔ ہر زبان آگ برسا رہی ہے اور ہر ذہن انتشار پھیلانے میں مصروف ہے۔ میرا ملک ایسی طرز سیاست میں گھرا ہوا ہے جہاں سیاست کرنے والے اپنی ذمہ داری بھولے بیٹھے ہیں قوم کا نام لے کر ملک کا نام لے کر ملک و قوم دونوں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ عروج پر ہے۔ 
 لوگوں کے لیے ہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے پاکستان میں وسائل سے محروم افراد،  تنخواہ دار طبقے اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے ہر دن ایک نیا عذاب ہوتا ہے اور یہ زمینی عذاب ہے جو ان حکمرانوں کی نالائقی کی وجہ سے ہے۔ کہیں روزگار نہیں مل رہا کہیں بچے تعلیم سے محروم ہیں کہیں صحت کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے سینکڑوں ہزاروں افراد تکلیف میں ہیں۔ کہیں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے خود کشیاں ہو رہی ہیں اورکہیں بہترین ذہن منفی کاموں کی  طرف جا رہے ہیں۔ ان حالات کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم سب ہیں۔ وہ جو حکمران ہیں اور ہم جو انہیں حق حکمرانی دیتے ہیں۔ بہرحال لکھنے کو بہت کچھ لیکن صرف یہی کہا جائے کہ کاش حکمران طبقہ کچھ وقت ملک کے لیے بھی نکالے تو شاید کچھ بہتر ہو جائے ۔ بہرحال اگر سیاسی قیادت کو کچھ وقت ملے تو اسے ضرور سوچنا چاہیے کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے پیش کی جانے والی تجاویز پر کیسے عمل کرنا ہے اور کون سی تجاویز قابل عمل ہیں، کن تجاویز پر جنگی بنیادوں پر عمل کی ضرورت ہے ۔
پاکستان کے پاس موجود غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو گئے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق رواں ہفتے زرمبادلہ کے ذخائر 29.29 کروڑ ڈالر کم ہوئے۔سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ملکی زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 23 دسمبر تک 11.71 ارب ڈالر رہے۔ سٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر 29.43 کروڑ  ڈالر کم ہوکر 5.82 ارب ڈالر رہے جبکہ  کمرشل بینکوں کے ذخائر 14 لاکھ ڈالر اضافے سے 5.88 ارب ڈالر رہے۔ کمرشل بینکوں کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ہم معاشی استحکام کے خواہشمند ہیں لیکن جب ایسی خبریں سامنے آتی ہیں تو استحکام کے بجائے عدم استحکام میں شدت کا راستہ کھلتا ہے۔ کوئی تو ہو جو ان حالات میں ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کی خاطر آگے بڑھے اور ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کام کرے۔ کوئی تو ہو۔
دوسری طرف پاکستان بزنس کونسل نے کہا ہے کہ پاکستان کو فوری درآمدی ایندھن کا استعمال کم کرنا ہوگا۔ جہاں ممکن ہو وہاں ہفتے میں تین دن گھر سے کام کیا جائے۔ ہائے ویز پر رفتار کی حد دس کلو میٹر فی گھنٹہ کم کر دی جائے۔ بڑے شہروں میں اتوار کو گاڑیاں نہ چلائی جائیں، پبلک ٹرانسپورٹ کو سستا کیا جائے، چھوٹے فاصلے پیدل یا سائیکل پرطے کرنے کی حوصلہ افزائی اور کار شیئرنگ سے ایندھن کا استعمال کم کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ بڑے شہروں میں متبادل اور مال بردار گاڑیوں کا مؤثر استعمال کرنے کی عادت اپنائی جائے۔ یہ اچھی تجاویز ہیں ان تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تجاویز میں یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ حکمران طبقہ سرکاری وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے کام کرے، سرکاری دفاتر میں جس بے رحمی سے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے اس پر قابو پایا جائے۔ سرکاری دفاتر میں "بابو" کی عدم موجودگی میں بھی توانائی کا ضیاع ہوتا ہے، سرکاری گاڑیوں، سرکاری گھروں اور وسائل کو بے رحمی سے ضائع کیا جاتا ہے۔ ان سب کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری گاڑیوں کی شکل میں بھی توانائی کا ضیاع عام سی بات ہے اسے کون قابو کرے گا ۔ ایسے کاموں اور ان تجاویز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیئے اتفاق رائے اور مسلسل بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرونا کے دنوں میں این سی او سی کی طرز پر توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے ملکی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ادارے یہ فیصلہ کر لیں کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے جس اتحاد اور پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کیا گیا تھا ان بنیادوں پر دیگر قومی مسائل حل کرنے کی طرف بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ شرط یہ ہے کہ اداے فیصلہ کریں کہ ملک کو مسائل سے نکالنا ہے، وزارتوں کو کام پر لگانا ہے اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہے، ان بنیادی مسائل کے حل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے ساتھ بے رحمی سے نمٹا جائے اور کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...