وسطی بھارت کے مشہور شہر اجیّن میں ایک عجیب ماجرا ہو رہا ہے۔ ایسا کہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ یہاں 2028ء میں یعنی لگ بھگ 5 سال بعد کمبھ میلہ ہو گا اور وشوا ہندو پریشد نے سرکار کے تعاون سے تمام مسلمانوں کو شہر سے نکلنے کا حکم دیا ہے تاکہ ان کے رہائشی علاقوں کو مسمار کر کے وہاں میلے کیلئے پارکنگ بنائی جا سکے۔
مدھیہ پردیش کا یہ شہر اپنی تاریخی حقیقت کی وجہ سے بہت ممتاز ہے۔ یہاں بہت سے ہندو آثار ہیں اور یہ اس وجہ سے اور بھی اہم ہے کہ یہ ان چار شہروں میں شامل ہے جہاں ہر 12 برس بعد کمبھ میلہ ہوتا ہے۔ باقی تین شہر یو پی کا الہ آباد (اب اس کا نام بی جے پی نے تبدیل کر کے پریاگ نواح رکھ دیا ہے، ھری دوار (اترا کھنڈ) اور ناسک (گجرات) ہیں۔ اجیّن کی آبادی سات آٹھ لاکھ ہے اور اس کی 20 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اس سے پہلے کبھی میلے کے نام پر مسلمانوں کو گھر یا شہر بدر کرنے کی بات نہیں ہوئی۔ گویا اب یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ الہ آباد کے شہر سے بھی مسلمانوں کے انخلاء کا حکم دیا جا سکتا ہے۔ الہ آباد سے مسلمانوں کی وابستگی بہت پرانی ہے۔ 17,16 لاکھ کی آبادی میں 22 فیصد مسلمان ہیں یعنی لگ بھگ ساڑھے تین چار لاکھ مسلمانوں کا انخلا ہو سکتا ہے۔ جمعیت علمائے ہند نے اجیّن میں ہونے والی اس واردات پر احتجاج کیا ہے اور معاملہ عدالت لے جانے کا اعلان کیا ہے لیکن بھارتی عدالتیں مسلمانوں کو جیسا انصاف دیا کرتی ہیں، سب جانتے ہیں اور اب تو بیشتر بھارتی ریاستوں میں سنگ پریوار کی حکومت ہے جس کا نعرہ ہی یہی ہے کہ بابر کی سنتان یا تو ہندو دھرم اپنا لے یا پاکستان چلی جائے ورنہ ہم اسے قبرستان پہنچا دیں گے۔
جس مسلمان دنیا میں کشمیریوں، فلسطینیوں،روہنگیائوں اور شامی مسلمانوں کی کوئی نہیں سنتا، اس میں اجیّن کے لاکھ سوا لاکھ مسلمانوں کی کون سنے گا۔ اجیّن میں ہمیشہ سے یہ کمبھ، میلہ ہوتا چلا آیا ہے، پہلے کبھی ’’پارکنگ‘‘ کی ایسی ضرورت نہیں پڑی لیکن اب پڑی ہے تو وہ بھی مسلمانوں کی گل مہر کالونی میں۔
____________
برسبیل تذکرہ، کمبھ میلہ اپنی جگہ دنیا بھر میں ہونے والا منفرد میلہ ہے۔ شعر و حکمت اور مذہبی رسومات کے دیوتا برھاس پتی Brihas Pati سے منسوب یہ میلہ ہر تین سال بعد چار میں سے ایک شہر میں ہوتا ہے۔ گویا بارہ سال میں ایک چکرّ پورا کرتا ہے، دنیا میں ہونے والا یہ سب سے بڑا میلہ ہے جس میں کروڑوں افراد شرکت کرتے ہیں۔ سب سے بڑا میلہ الہ آباد (اب پریاگ راج) میں سنگم کے مقام پر لگتا ہے جس کے شرکا کی تعداد چار کروڑ سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔
سنگم میں جغرافی طور پر دو دریا، گنگا اور جمنا ملتے ہیں لیکن ہندو دھرم کے عقیدے کے مطابق ایک تیسرا دریا سرس وتی بھی اسی سنگم پر آکر ملتا ہے۔ یہ دریا زیر زمین ہے۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں برسر زمین بہتا تھا، پھر لوگوں کی ناقدری سے دیوتا ناخوش ہوا اور اسے زیر زمین کر دیا۔
الہ آباد (جس کے انگریزی ہجے اللہ آباد ALLAHABAD کے ہیں، یو پی اور بھارت کے درمیانی صف والے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ اپنی اہمیت کے اعتبار سے لکھنئو کے بعد اسی کا نمبر آتا ہے۔ ہندوئوں کے علاوہ مسلمانوں کے بہت سے مشاہیر بھی اسی شہر نے پیدا کئے۔ آدتیہ ناتھ یوگی کی سرکار نے اس کا نام بدل ڈالا لیکن شہروالے، کیا ہندو، کیا مسلمان، اپنے شہر نواب بھی الہ آباد کے نام سے ہی بلاتے ہیں۔
____________
الہ آباد کا کنبھ میلہ دنیائے حیرت ہے۔ چار کروڑ لوگوں کا اکٹھ، میلوں میل لمبے قناتوں، شامیانوں اور جھونپڑوں کا ایک نیا شہر آباد ہو جاتا ہے۔ تماشائیوں ا ور یاتریوں کیلئے خصوصی کشش جوگیوں، سنیاسیوں، مہارشیوں، سادھوئوں میں ہے جو لاکھوں کی تعداد میں میلے کا رخ کرتے ہیں۔ جابجا انوکھے سادھو نظر آتے ہیں۔ کوئی ایک ٹانگ پر دن رات آنکھیں بند کئے کھڑا ہے، کھاتا ہے نہ پیتا ہے، ہلتا ہے نہ ملتا ہے۔ کوئی درخت کی شاخ سے الٹا لٹکا ہوا ہے اور بس رات دن الٹا ہی لٹکا ہوا ہے۔ کوئی آسن جما کر بیٹھا ہے اور کوئی مافوق الفہم کرتب، شعبدے اور چمتکار دکھا رہا ہے۔ ایسے لوگ سینکڑوں نہیں، ہزاروں کی تعداد میں ملتے ہیں۔
سادھوئوں کی سب سے انوکھی جماعت’’اگھوریوں‘‘ کی ہے۔ بالکل ننگے گھومتے ہیں، سردی ہو یا گرمی۔ یہ آدم خور سادھو ہیں۔
آپ کو حیرت ہوئی ؟۔بھارت واحد ملک ہے جہاں آدم خوری کی جزوی اور غیر اعلانیہ اجازت ہے۔ یعنی قانون تو نہیں ہے لیکن پولیس اور دوسرے حکام چشم پوشی کرتے ہیں۔ یہ اجازت صرف اگھوری سادھوئوں کو ہے لیکن یہ زندہ انسانوں کو مار کر نہیں کھاتے۔ شمشان گھاٹوں میں گھس جاتے ہیں ا ور جلتی لاش کو کھینچ لیتے ہیں اور پھر کھا جاتے ہیں۔ یہ پرندوں اور چھوٹے جانوروں کو زندہ ہی کھا جاتے ہیں۔ ایک ہاتھ سے پکڑا اور دانت گاڑ کر گردن دھڑ سے الگ کر دی۔ پھر خون پیا اور بعد میں اسے کچا ہی کھا گئے۔ یہ کالا جادو جانتے ہیں، لوگ ان سے ڈرتے ہیں، یہ ٹولیوں میں رہتے ، گوشت کھاتے، تمباکو اور سلفہ پیتے اور طرح طرح کے شعبدے دکھاتے ہیں۔
پڑھے لکھے ہندوسکالروں اور گوروئوںکیلئے یہ میلہ اپنا پیغام پہنچانے کا بہت بڑا پلیٹ فارم ہے، ان میں سے ہر گورو اپنا بہت بڑا شامیانہ لگاتا ہے اور اس کے مرید، ماننے اور چاہنے والے وہاں جم کر بیٹھتے اور گورو کا بھاشن سنتے ہیں۔ ہزارہا یورپی امریکی بھی آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ہندو مذہب قبول کر چکے ہوتے ہیں اور ان گوروئوں کی تقریریں سنتے ہیں۔ یہ گورو قدیم اور جدید علوم کے ماہر، سائنس کو اچھی طرح پڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض کی شہرت عالمی سطح کی ہے اور یہ امریکہ یورپ کے رسالوں اخباروں میں مقالے بھی لکھتے ہیں۔
اب تک کمبھ میلے کو مسلمانوں کیخلاف نفرت کیلئے استعمال نہیں کیا گیا تھا، یہ روایت چلی آ رہی ہے لیکن اب بی جے پی نے یہ انہونی بھی کر دی ہے۔ اجیّن اس کی ابتدا ہے۔
____________