قرۃالعین شعیب
ہمارے ملک میں سب سے بدحال طبقہ بچوں کا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بچے ہماری حکومتوں کی ترجیح نہیں ہیں۔ جب کہ والدین کی ترجیح بچوں کی روٹی اور ضروریات پوری کرنا ہے۔ بچے کی نفسیات ، اس کی تعلیم و تربیت اور اس کا مستقبل مجموعی طور پر قومی ترجیح نہیں ہے۔ والدین بچوں کو سکول بھیج کر اپنی ساری ذمہ داریوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ سکول کے بعد قرآن کی کلاس پھر اکیڈمی اور شام کو ہوم ٹیوشن، بچہ اتنا تھک چکا ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین سے کیا سیکھے گا؟ ان کے ساتھ کوالٹی ٹائم کیسے گزارے گا؟ ماؤں نے اپنی ساری ذمہ داری سکول اور ٹیوٹرز کے ذمہ ڈال دی ہے۔ سکول کچھ پوچھتا ہے بچے کے متعلق تو بیشتر مائیں کہتی ہیں کہ ٹیوشن والی کو پتا ہو گا پوچھ کر بتاتی ہوں۔ اس وقت حیرت ہوتی ہے جب یہ خواتین اتنا بھی گوارا نہیں کرتیں کہ ٹیوشن سے بچہ گھر آیا ہے تو اس کی کتابیں کھول کر ایک بار دیکھ ہی لیں۔ والد کو تو بچے کے حوالے سے کبھی کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ انھیں رابطہ کیا جائے تو کہتے ہیں ماں کو پتا ہوگا۔ بہت سی مائیں بچوں کو لنچ نہیں دیتیں۔ بچوں کو پیسے دے دیتی ہیں۔ سکولوں میں اکثر بچے ناشتہ نہ کرنے کی وجہ سے بے ہوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ ناشتہ نہ کرنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو بتاتے ہیں ماما سو رہی تھیں ناشتہ نہیں دیا۔ بچوں کے بال بنا کر نہیں بھیجتیں۔ بچوں کے سر میں جوئیں اس قدر ہوتی ہیں کہ دیکھ کر خوف آتا ہے کہ یہ بچے کی صحت کے لیے ذرا بھی فکر مند نہیں ہیں۔ اکثر مائیں بچوں کو کئی کئی دن نہیں نہلاتیں۔ یونیفارم گندا ہوتا ہے۔ والدین شادیاں اٹینڈ کرتے ہیں۔ گھومنے پھرنے اور شادیوں پر خوب اخراجات کرتے ہیں۔ لیکن بچوں کی تعلیمی ضروریات پر خرچ نہیں کرتے۔ جن میں سٹیشنری اور کاپیاں بہت اہم ہیں۔ بعض بچوں کو والدین جیب خرچ تو بہت زیادہ دیتے ہیں لیکن کوشش کرتے ہیں کہ بچے کو کم فیس والے سکول میں داخل کروائیں۔ اساتذہ کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ انھیں ملازم سمجھتے ہیں۔ اساتذہ کے احترام کا دور ختم ہو چکا ہے۔ بیشتر والدین آج کل انہی رویوں پر کاربند ہیں۔
ادھر وہ اساتذہ ، ٹیوشن والی باجیاں اور سکول جن کے حوالے والدین اپنا بچہ کرکے خود ہائیبرنیٹ ہو جاتے ہیں، وہاں پر اسکولوں کے مالکان سرمایہ دار صرف فیسیں وصول کرتے ہیں۔ تربیت کے پہلو کو یکسر بھلا دیا گیا ہے۔ اساتذہ بھی صرف ٹائم پاس کرتے ہیں۔ کسی کے گھر میں کمانے والا نہیں اور کوئی نوکری نہیں ملتی ہے تو استاد بن جاتے ہیں۔ کہیں کسی کے پاس فری ٹائم ہے اچھا گزر جائے گا تو استاد بن جاتے ہیں۔ کسی نے جہیز بنانا ہے تو وہ سکول جوائن کر لے گی۔ پڑھانا یا بچوں کی تربیت کرنا کسی کا جذبہ نہیں ہے۔
مجھے اتنے برس ہو گئے ہیں خواتین اساتذہ کے انٹرویوز کرتے ہوئے۔ ہمیشہ اس سوال کا جواب کہ آپ استاد ہی کیوں بننا چاہتے ہیں اور کوئی نوکری کیوں نہیں کرتے۔ جواب یہ ہی ملتا ہے اخراجات پورے کرنے ہیں ، فیس دینی ہے ، جہیز بنانا ہے یا فارغ وقت گزارنا ہے۔ شاذونادر ہی کسی نے کہا ہوگا کہ پڑھانا میرا شوق ہے۔ میں ہمیشہ سے استاد بننا چاہتی تھی۔ اس کی وجہ والدین ہیں جو اپنے بچوں کو ڈاکٹرز، انجینئرز ، بزنس مین اور ملازم تو بنانا چاہتے ہیں لیکن ایک استاد نہیں بنانا چاہتے۔
ایک سکول میں وزٹ کے دوران میں نے بچوں سے سوال کیا کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں۔ تین سو بچوں میں صرف دو بچے استاد بننا چاہتے تھے۔ باقی سب کے جواب ڈاکٹر ، انجینیر جب کہ زیادہ تر بچے فوج یا سول سروس میں جانا چاہتے تھے۔ ہم نے بچوں کو سکھایا ہے کہ کامیابی ڈاکٹر انجینئر بننے میں ہے یا فوج یا سول سروس میں جانے سے ہے۔ ہم نے انھیں نہیں سکھایا کہ اچھا استاد بننا بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس وجہ سے وہ تمام بچے جنھیں کہیں نوکری نہیں ملتی یا وہ انتہائی کم نمبروں سے پاس ہوتے ہیں وہ سکولوں کے استاد بن جاتے ہیں۔
اس طرح کے اساتذہ کا کوئی وڑن نہیں ہوتا۔کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ جب کہ استاد بننا بڑے پیشن کا کام ہے۔ اگر استاد میں پیشن نہیں تو آپ بچے کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ میرے نزدیک جو اساتذہ اس وقت پاکستان کے سکولوں میں پڑھا رہے ہیں ان میں سے بیشتر بچوں کی تربیت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کی خود کی تربیت ہونے والی ہے۔ انھیں بچوں کی نفیسات کی الف ب تک معلوم نہیں۔ انھیں بچوں کے مسائل اور ان کی ضروریات کا بلکل علم نہیں۔ انھیں تعلیم کے میدان میں ہونے والی ترقی کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ وہ جدید علوم پر دسترس نہیں رکھتے۔ فنون لطیفہ کے بارے میں پوچھ لیں تو سمجھ ہی نہیں پائیں گے کہ یہ کیا بلا ہیں یا انہیں برا اور گناہ سمجھیں گے۔ نصابی کتب کے علاوہ زندگی میں کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوتی۔ جنرل نالج صفر ہوتا ہے۔ ایسے اساتذہ بچوں میں کیا منتقل کریں گے؟
ماں کی گود بچے کی ابتدائی درس گاہ ہوتی ہے۔ لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ اڑھائی سال کے بچے کو سکول میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔ جہاں پر ڈے کیر کے ساتھ بچے کو ابتدائی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ سکول یہ ماڈل اس لیے فراہم کرتے ہیں کہ اس میں سرمایہ ہے۔ مائیں یہ ماڈل اس لیے قبول کرتی ہیں کہ انھیں بچوں سے جان چھڑانی ہے۔ اس وقت خصوصاً پسماندہ علاقوں میں والدین بچوں کی تعلیم کے حوالے سے زیادہ غیر سنجیدہ ہیں۔ جب کہ اچھے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی بچوں کی تعلیم اور تربیت کے حوالے سے گائیڈ لائین میسر نہیں ہے۔ بدلتے ہوئے وقت اور اس کے تقاضوں سے اساتذہ اور والدین دونوں ناآشنا ہیں۔ انھیں اس حوالے سے تربیت فراہم کرنا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ آنے والی نسلیں جن پر قوم کے مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے ان کی تعلیم و تربیت اور نفسیات کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات اٹھانا ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ریاست کا کام معاشرے کی تربیت کرنا بھی ہے۔ جس میں والدین ، اساتذہ اور بچے بھی شامل ہیں۔ صرف گورنمنٹ سکول ہی نہیں پرائیویٹ سکولوں کو بھی ریاست کی راہنمائی اور مدد کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان سکولوں میں بھی اسی ملک کے بچے پڑھتے ہیں۔ جب کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ اس کے لیے تمام بچے برابر ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارے بچوں کو اچھے ( باشعور ) والدین اور اچھے ( باشعور ) اساتذہ درکار ہیں۔ تبھی ہماری قوم کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا بگاڑ ابتدائی درس گاہ( ماں) اور سکولوں کے غیر سنجیدہ رویوں کا شاخسانہ ہے۔