سفر وسیلہ ء ظفر

درخشاں … اللہ دتہ نجمی.
وہ جو کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے، شاید زندگی میں وہ کسی پر خار سفر سے خوار نہیں ہوئے ہونگے. ہر سفر میں ظفر یابی ہو، یہ لازم بھی تو نہیں. اگر مارکو پولو چین، ابن بطوطہ ہندوستان اور کولمبس امریکہ کی بجائے افغانستان کا سفر کرتے تو شائید انہیں سفر نامے لکھنے کا موقع ہی نہ ملتا. ہاتھوں میں قلم ہونے کی بجائے گردنیں ہی قلم ہو گئی ہوتیں. اِس ضرب المثل کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کریں تو کئی حقیقتیں آشکار ہوتی ہیں. سفر در سفر نے شیخ سعدی کو مدبر اور مفکر بنا دیا. میاں محمد شریف مرحوم اگر امرتسر سے لاہور ہجرت نما سفر نہ کرتے تو ان کے بیٹے وہاں رہ کر بھارت کے پردھان منتری تو نہ بن پاتے. ڈنکی لگا کر جو لوگ یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، ان کے لئے سفر واقعی وسیلہء  ظفر ٹھہرا مگر لیبیا سے اٹلی براستہ یونان عازمِ سفر ہونے والے کشتی ڈوبنے سے اپنی جانیں ہارنے والے تو الٹا اپنے پیاروں کو زندگی بھر کا روگ دے گئے. سو، ظفر یابی یا ناکامی کا دارومدار سفر کے ساتھ ساتھ مسافِر کی قسمت سے پیوست ہوتا ہے. ہر سفر اپنے آغاز سے اختتام تک خوش کن یا سوگوار کہانیاں تخلیق کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے.
میرے ایک راولپنڈی سے لاہور کے ایک ناخوشگوار سفر کی روداد ملاحظہ فرمائیں! یہ نامرغوبیت کسی مستند کوچ سروس کی  پیشگی بکنگ کے بجائے عام پبلک کنوینس پر سفر کرنے کے میرے کوتاہ اَندیش فیصلے کے باعث میرے نصیب میں لکھی گئی تھی. فیض آباد سٹاپ پر جلدی لاہور پہنچنے کے لالچ میں ٹرمینل چھوڑتی ہوئی ایک گاڑی پر بیٹھ گیا. یہ عقدہ کھلنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ باہر سے کوچ نظر آنے والی یہ گاڑی دراصل اندر سے کوچ نہیں، ایک سن رسیدہ بس (bus) تھی. یہ سفر چار کرداروں، بس، ڈرائیور، کنڈیکٹر اور سواریوں پر مشتمل تھا. ہم عمری اور دیگر خصائل کے اعتبار سے بس اور فارغ البال بس ڈرائیور کی جوڑی خوب جچ رہی تھی. البتہ کنڈیکٹر کا رویہ اتنا جارہانہ، گستاخانہ اور باغیانہ تھا کہ سواریوں کے پاس اپنی بیچارگیوں پر شاکر رینے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا. بس بھی کمال وضعداری کا بھرم نبھاتے ہوئے ہر چھوٹے بڑے سٹاپ پر سٹاپ کرنا ضروری خیال کرتی رہی. اس کے بعد راولپنڈی سے لاہور رواں دواں ہونے والی گاڑیاں "شوں" کی آواز سے اسے اوورٹیک کرتیں تو دل میں ہوک سی اٹھتی اور ان گاڑیوں میں بیٹھی سواریوں کی قسمت پر بے اختیار رشک و حسد کے ملے جلے جذبات جنم لینا شروع کر دیتے. ساڑھے تین گھنٹوں میں جہلم پل پر پہنچتے ہی بس کو دم لینے کے لئے روک دیا گیا اور سواریوں کو ناشتہ واشتہ کرنے کا بھاشن دے کر کنڈیکٹر گاڑی سے اتر گیا.
ہاں یاد آیا جب گاڑی نے راولپنڈی کو خدا حافظ کہا تو بارانِ رحمت کا نزول ہو رہا تھا. بارش باہر برستی اور اس کا پانی قطروں اور کہیں دھار کی صورت میں کم و بیش ہر سیٹ پر ٹپک رہا ہوتا. بارش رک بھی جاتی تو بھی یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہتا. میں نے سیٹ بدلنے کی کوشش کی تو کنڈیکٹر کا غیر شائستہ رویہ آڑے آیا. ایک اپ ٹو ڈیٹ آدمی نے وکیلانہ اور مجاہدانہ انداز میں بحث کا آغاز کرنے کے لئے تمہید باندھی ہی تھی کہ کنڈیکٹر نے منہ سے واہی تباہی بکتے ہوئے اس کا گریبان پکڑ لیا اور کرایہ واپس کئے بغیر اسی جگہ بس سے نیچے اتارنے کی دھمکی دی. دیگر سواریوں نے بڑی مشکل سے اسے پٹنے کے عمل اور دیگر نازل ہونے والی آفات سے بچانے میں اس کی مدد کی. اس مہم جوئی کے بعد ا? کا 'جھاکا' مزید اتر گیا. اونچی آواز میں بولتی اور احتجاج کرتی سواریاں اب زیرِ لب بڑبڑانے پر ہی اکتفا کر رہی تھیں.
جو نئی سواریاں بس میں چڑھتیں، ان کو پہلے سے بیٹھی سواریوں کو اٹھا کر بٹھا دیا جاتا اور اس کو کہیں اور ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی جاتی. یوں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر زیادہ تر سواریوں کو اپنی پہلی والی پوزیشنیں چھوڑنا پڑتیں اور خاطرداری علیحدہ ہوتی. ڈرائیور نے بعض سواریوں کی شکایت پر اس سے باز پرس کرنے کی کئی ناکام کوششیں کیں. آخری دفعہ جب اس نے تلخ لہجے میں بات کی تو کنڈیکٹر کی عزتِ نفس نے جوش مارا اور چلتی بس میں ڈرائیور کی دھلائی کرنا شروع کر دی. ڈرائیور نے شائید اِس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں گاڑی روکنے سے معاملہ تھپڑوں اور گھونسوں سے نکل کر ہڈیاں توڑنے تک نہ پہنچ جائے، چلتی گاڑی میں ہی مار کھانا پسند کی. تاہم اس نے خلقِ خدا اور اپنی بہتری کی خاطر گاڑی کی رفتار انتہائی کم کر دی. چلتی گاڑی میں ڈرائیور کی پٹائی کا منظر میں نے اپنی زندگی میں پہلی اور آخری بار دیکھا. ڈرائیور کو فتح کرنے کے بعد کنڈیکٹر خود کو ہیرو نما ولن یا ولن نما ہیرو سمجھ رہا تھا اور ڈرائیور اپنا روایتی تشخص کھونے کے بعد تکنیکی طور پر ایک عام سواری کی حیثیت اختیار کر چکا تھا.
اچانک بیکل حالات  میں ایک سنسنی خیز twist آیا. کنڈیکٹر نے ایک سٹاپ سے چند لوگوں کو سیٹیں دینے کے وعدے پر بس میں سوار تو کر لیا مگر کوئی سیٹ دستیاب ہوتی تو ان کو مل سکتی. انہوں نے حسبِ وعدہ سیٹوں کا تقاضا کیا تو اس نے بھی اپنے مخصوص روایتی انداز میں ردعمل دینا شروع کر دیا. اچانک ایک سانولی رنگت کے حامل تیس سالہ صحت مند گھبرو نے کنڈیکٹر کو گریبان سے پکڑتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا، "میرا نام چوہدری کرامت حسین ہے اور میں فلاں پنڈ کا رہائشی ہوں. بتا اِس لئے رہا ہوں کہ تم نے بعد میں بھی میرا کچھ اکھاڑنا ہوا تو اکھاڑ لینا". پنجابی زبان میں یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے زَنّاٹے دار تین چار تھپڑوں کی آواز پوری بس میں گونجی. کنڈیکٹر پر "ات خدا دا ویر" اور "ہَر کَمالے را زَوال" کے فطری اصولوں کا اطلاق ہو چکا تھا اور اِس ہیرو کی جون تیزی سے زیرو میں بَدَل رہی تھی. راستے میں سواریوں کے لئے دہشت اور وحشت کی مثال بنا کنڈیکٹر اتنا دم بخود اور خوفزدہ ہو چکا تھا کہ اس سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت یا احتجاج بھی نہ ہو سکا.
اِس غیر متوقع صورتحال میں اب وہ مزید سواریاں بٹھانے کی بجائے فقط انہیں اتارنے پر ہی تکیہ کر رہا تھا. اِس خدشے کی بنیاد یہی ہو سکتی ہے کہ کہیں بس میں کسی اور چوہدری کرامت حسین کی کرامتیں وقوع  پذیر نہ ہو جائیں. چوہدری کی دیدہء  دلیری پر سواریاں ہی نہیں، بس ڈرائیور بھی خوشی سے نہال ہو رہا تھا. بس کی آواز اور رفتار میں بھی شوخی، تیزی اور بیباکی آ چکی تھی اور میرے ذہن میں بے اختیار مصطفیٰ زیدی کی مسرت نذیر کی مدھر آواز میں گائی ہوئی خوبصورت غزل کے مطلع کا پہلا مصرعہ "چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر، آہستہ… آہستہ..." رہ رہ کر گونج رہا تھا.

ای پیپر دی نیشن