سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سرعام پھانسی کی مخالفت کر دی۔ قائمہ کمیٹی کا اجلاس سینٹر ولید اقبال کی زیر صدارت ہوا۔ولید اقبال نے قرارداد پڑھی جس میں کہا گیا کہ سینٹ کوئی ایسا قانون منظور نہ کرے جس میں سرعام پھانسی ہو۔ کمیٹی سرعام پھانسی کی مخالفت کرتی ہے۔سرعام پھانسی دینے کے لیے اتفاق رائے ضروری ہے۔
آئین کے تحت پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون بن ہی نہیں سکتا جو قرآن و حدیث کے مطابق نہ ہو۔سینٹ میں سرعام پھانسی کے حوالے سے دونوں طرف فکر انگیزدلائل دیے گئے۔یورپی یونین کی طرف سے تو یہ کوشش ہو رہی ہے کہ سرے سے پھانسی کی سزا ہی نہ دی جائے۔پاکستان کو بھی اس پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی اور مالیاتی اداروں کی طرف سے بعض اوقات تو سزائے موت کے خاتمے سے امداد کو مشروط کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔پاکستان میں ایک عرصے تک سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد غیر اعلانیہ طور پرمعطل رہا۔ آج سرعام پھانسی کے حوالے سے بحث ہو رہی ہے۔فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ انسان کے وقار کا قران میں ذکر ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے کہ ہم نے آدم کو اورآدم کی اولاد کو عزت دی۔جواب میں سینٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ بین الاقوامی معاہدوں کی بات نہ کریں ہمیں تو یورپی یونین کو قائل کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ وہ ہمیں قائل کرے۔قران پاک میں سرعام پھانسی نہیں تو سعودی عرب میں کیوں دی جا رہی ہے۔
سرعام پھانسی کے عملی پہلوؤں کا اگر تذکرہ کریں تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک بچے پپو کے ساتھ زیادتی کی گئی اور اسے قتل کر دیا گیا تھا۔قاتلوں کو سرعام پھانسی دی گئی تھی اسکے بعد ایک عرصے تک پاکستان میں ایسے سنگین جرائم نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔سنگین جرائم کا خاتمہ عبرت ناک سزاؤں سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔پاکستان میں جرائم جن میں جبری زیادتی کے بعد قتل ڈکیتیوں کے دوران پورے پورے خاندان کا قتل، غیرت کے نام پر اور دہشت گردی میں قتل و غارت گری کتنی عام ہو گئی ہے۔ حالات کا تقاضا تو یہی کہتا ہے کہ کچھ لوگوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔سرعام پھانسی کا سلسلہ بے شک مستقل بنیادوں پر نہ ہو۔عارضی طور پر اس کا نفاذ ناگزیر نظر آتا ہے۔جہاں تک اتفاق رائے کی ضرورت ہے تو یہی اولین شرط ہے۔