چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہیجان‘ مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کرکے یہ تاثر دیا جارہا ہے جیسے ریاست اپنا وجود کھو رہی ہے۔ گزشتہ روز کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقدہ نیشنل فارمرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر قسم کے مافیاز کی قوم کے ساتھ مل کر سرکوبی کی جائیگی۔ پاکستان کے بارے میں افواہیں پھیلائی اور منفی باتیں بتائی جا رہی ہیں۔ ایسے عناصر کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں کلمہ کے نام پر دو ہی ریاستیں قائم ہوئی ہیں۔ ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان۔ اور یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان وسائل سے مالامال ہے۔ اسکے پاس گلیشیئر‘ دریا‘ پہاڑ اور زرخیز زمین ہے۔ 60ء کی دہائی میں پاکستان ایشیا کا تیزی سے ترقی کرنے والا ملک تھا لیکن ہم نے قائداعظم کے تین زریں اصولوں ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم کو بھلا دیا جس کی وجہ سے ہم تنزلی کا شکار ہوئے۔ جنرل عاصم منیر کے بقول گرین اینیشٹیو کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں سب سے پہلے زراعت پر کام کرنا ہے‘ اسکی آمدن کا بڑا حصہ صوبوں کو جائیگا جبکہ باقی حصہ کسانوں اور زرعی ریسرچ کیلئے رکھا جائیگا۔ فوج کا اس میں کردار صرف عوام اور کسانوں کی خدمت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آسان زرعی قرضوں‘ کولڈ سٹوریج کی چین‘ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ بیج اور سٹیٹیسٹیکلی انجینئرڈ لائیو سٹاک کی فراہمی یقینی بنائی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی کمی ایسی حقیقتیں ہیں جو پاکستان کے غذائی تحفظ کیلئے ایک چیلنج ہیں۔ ہم مل کر اللہ کے فضل سے اس مشکل وقت سے نکل جائیں گے اور ہر شعبے میں اپنے اہداف حاصل کریں گے۔
اس امر پر تو کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کا قیام خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر عمل میں آیا تھا جسے بانی پاکستان قائداعظم نے اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا اور ہمارا یہ یقین ہے کہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر تشکیل پانے والی مملکت خداداد نے ابد تک قائم رہنا اور مسلم دنیا کے دفاع کی مضبوط بنیاد بننا ہے۔ اسکی سلامتی کیخلاف الحادی قوتوں کی کوئی سازش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی کیونکہ جری و بہادر افواج پاکستان کے ہاتھوں اس کا دفاع مضبوط ہے جو ہر قسم کی جنگی‘ دفاعی صلاحیتوں سے مالامال ہیں اور اپنی ان خداداد صلاحیتوں کا اقوام عالم میں سکہ جما چکی ہیں۔ تاہم ہمیں اس امر کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ تمام تر وسائل سے مالامال ہونے کیباوجود( جس کا تذکرہ آرمی چیف نے اپنی تقریر میں بھی کیا ہے)ہم ترقی کے سفر میں اب تک کامیابی سے کیوں ہمکنار نہیں ہو پائے اور عوام الناس کے معاشی اور اقتصادی حالات کیوں خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمیں یقیناً اس امر کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطہ ارضی کا خواب کیوں دیکھا اور اس کا تصور کیوں پیش کیا تھا اور پھر قائداعظم نے کس سوچ اور جذبے کی بنیاد پر علامہ اقبال کے خواب کو پاکستان کی تشکیل کی صورت میں شرمندہ تعبیر کیا۔ اور کیا قیام پاکستان کے وہ مقاصد اب تک ہم پورے کر پائے ہیں جو اس ملک خداداد کی بنیاد بنے تھے۔ اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ برصغیر میں برطانوی راج کے نفوذ کے بعد انگریز اور ہندو نے باہم گٹھ جوڑ کرکے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کے آگے بند باندھنے کی سازشوں کا آغاز کر دیا تھا جس کے تحت ایک تو مسلمانوں کی مذہبی آزادیاں سلب کی گئیں اور انکی عبادات کیلئے مشکلات پیدا کی گئیں اور دوسرے ان کیلئے اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے راستے مسدود کئے گئے اور اچھی ملازمتوں کا حصول ان کیلئے ناممکنات میں شامل کر دیا گیا۔ اس میں ہندو کے ساہوکارانہ نظام کا عمل دخل رہا جس کے نتیجہ میں مسلمان محروم طبقے میں شامل ہوتے گئے۔
جکڑ بندیوں کی اس فضا میں ہی برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ خطہ ارضی کی سوچ ابھری تھی جسے بانیان پاکستان اقبال و قائد نے بالآخر پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ بے شک قائداعظم نے اپنی زندگی تک پاکستان کو مستحکم اور خوشحال مملکت کے طور پر آگے لے جانے کے عملی اقدامات اٹھائے اور اگر وہ قیام پاکستان کے بعد مزید کچھ عرصہ تک حیات رہتے تو اس مملکت کی خوشحالی اور مذہبی آزادیوں میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہونے دیتے مگر انکی زندگی نے انہیں اسکی مہلت نہ دی اور پھر مفاد پرست سیاست دانوں‘ علماء اور دوسرے استحصالی طبقات نے پاکستان کی معیشت و معاشرت کو اپنے مفادات کا اسیر بنالیا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اس ارض وطن کو ہندو اور انگریز کے استحصالی نظام کی جانب واپس دھکیل کر اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان سے متعلق بانیان پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہی نہ ہونے دیا چنانچہ اس مملکت خداداد میں عوام الناس آج بھی اقتصادی بدحالی اور غربت و پسماندگی کا شکار ہیں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی بسر کر رہے ہیں جنہیں آج تک براہ راست سلطانی جمہور کے ثمرات بھی نہیں مل پائے۔ ان کیلئے ملازمتوں کے دروازے بھی حکمران اشرافیہ طبقات کی اختیار کردہ اقربا پروری کے باعث بند ہیں اور ان طبقات کے پیدا کردہ کرپشن کلچر نے عوام کی محرومیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ہمارا انتخابی نظام بھی اس نہج پر ڈھل چکا ہے کہ اس میں عام آدمی کیلئے انتخابی عمل میں شریک ہونے کی گنجائش ہی نہیں نکل پاتی جبکہ مذہب کے ٹھیکیداروں نے اپنے مفادات کی خاطر فرقہ بندیوں اور فروعی اختلافات کو فروغ دیکر یہاں مذہبی آزادیوں کا تصور بھی بے معنی بنا دیا ہے۔ اس طرح استحصالی طبقات نے مملکت خداداد کا تصور اور اسکے قیام کے مقاصد پورے ہی نہیں ہونے دیئے۔ ہمارے معاشرے میں اضطراب و انتشار پھیلنے کا یہی پس منظر ہے جس سے یقیناً ہمارے ازلی دشمن بھارت اور ملک کے دوسرے بدخواہوں کو فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ملتا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ بھی بنیادی طور پر وہاں کے سرداروں کا پیدا کردہ ہے جو بلوچستان کی دھرتی پر موجود سارے وسائل اپنے تسلط میں رکھنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے بلوچستان کی محرومیوں کا رونا رو کر پسماندہ رکھے گئے بلوچوں کو ملک میں منافرت پھیلانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب ایک زرعی خطہ ہے مگر زراعت کی ریڑھ کی ہڈی کسانوں کو وسائل سے محروم رکھا جاتا ہے جس سے ان میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا فطری امر ہے۔
اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے بھی ملک کی معیشت اور انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں مگر حکمران طبقات اصلاح احوال کی بجائے اس افتاد کو بھی عالمی فورموں پر اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں ملک کی اقتصادی اور زرعی ترقی کیلئے موجودہ سول اور عسکری قیادتوں کا جذبہ اپنی جگہ مگر جب تک مفاد پرست استحصالی طبقات کھل کھیلنے میں مکمل آزاد رہیں گے‘ اس ارض وطن کیخلاف دشنام طرازی کیلئے ملک کے بدخواہوں کے حوصلے بھی بڑھتے رہیں گے۔ خدا اس ارض وطن کو ہر قسم کی آزمائسوں اور بلائوں سے محفوظ فرمائے۔