جمعرات10 ، اگست ،2023 ء کو وزارتِ پارلیمانی امور کی جانب سے قومی اسمبلی کے تحلیل ہونے کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعدسیاسی پارٹیوں کا لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ معنی خیز ہونے کے علاوہ سیاسی جماعتوں کوعوامی حمایت نہ ملنے کا عندیہ ہے ،کھیل کے میدان میں دو متحارب ٹیموں کے درمیان مرتب ضابطہ اخلاق سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا اطلاق عمل میں لایا جاتا ہے ، سیاست میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ در حقیقت مقتدر قوتوں سے پسِ پردہ حمایت حاصل کرنا مقصود سمجھا جائے گا ،کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں کو اپنی قابلیت کے بل بوتے پر مساوی موقع فراہم کیا جاتا ہے ، جب کہ سیاست داں کی فیلڈ عوام ہوتے ہیں لہذا سیاسی لیڈر کو کسی موقع یا کندھے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سیاسی میدان میں عوام نے اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کر کے فیلڈ مہیا کرنی ہوتی ہے ، اور سیاست داں نے جدوجہد کرکے پلیئنگ فیلڈ بنانی ہوتی ہے۔
سرِ دست نہ لیول رہا اور نہ ہی فیلڈ،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریکِ انصاف کے پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا اور ان کا انتخابی نشان ’’ بلا ‘‘ واپس لے لیا ، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن کا لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ تھا انہیں فیلڈ دے کر مخصوص کو فیلڈ آئوٹ کر دیا گیاہے،فیلڈ آئوٹ کا طریقہ کار ماضی کے طریقوں سے کچھ مختلف ضرور ہے لیکن سیاسی پارٹیوں کے مخصوص انتخابی نشان کو ان سے محروم کر دینا عہدِ رفتہ کی روانی ہے۔
1970 ء اور 1977 ء میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان ’’ تلوار ‘‘ سے دو بار الیکشن میں حصہ لیا تھا ، تلوار کے اس انتخابی نشان کو ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور میں الیکشن کمیشن کی فہرست سے نکال دیا گیاتھا ، بعد ازاں تلوار کا یہ نشان پیپلز پارٹی کو دوبارہ 41 سال بعد واپس ملا ، جب کہ اس انتخابی نشان کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی ( شہید بھٹو) پارٹی بھی تھی جو کہ بھٹو کے وارث ہیں ، اس لحاظ سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرنے والی پی ٹی آئی کی خوش نصیبی ہے کہ اسے پشاور ہائیکورٹ سے بلے کا نشان چند ہفتوں میں واپس مل گیا، اسی طرح 1977 ء میں ہی دو انتخابی نشان بھی ختم کر دیئے گئے تھے ، جن میں پاکستان نیشنل الائنس (PNA ) کا انتخابی نشان ’’ ہل‘‘ اور جماعتِ اسلامی کا انتخابی نشان ’’ ترازو‘‘تھا ، 2013 ء میں تحریک ِ انصاف ترازو کی خواہشمند تھی لیکن جماعت اسلامی اپنا مخصوص انتخابی نشان ’’ ترازو ‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ خلفشار اورتغیرات سے لبریز ہے ، چونکہ عام انتخابات اکثر ہی متنازع رہتے ہیں ، لہذا اس تنازع میں تشکیل پانے والی کل حکومتیں شدید عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہیں، جو کہ انتہائی قابلِ تشویش بات ہے ، 1970 ء کے انتخابات کو غیر جانبدار اور شفاف تسلیم کیا جاتا ہے، جبکہ ان انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں کو مالی اور اخلاقی مدد مہیا کی گئی تھی ، 1977 ء کے انتخابات کو متنازع بنا کر دینی اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد بنا یا گیا اور سیاست دانوں میں آپس کی چپقلشوں کے نتیجے میں سیاسی وسعت اپنا وجود قائم نہ رکھ سکی اور اس کی بساط آمریت نے لپیٹ دی۔
آمریت کے سائے میں 1985 ء کے انتخابات ایک عجیب تماشہ تھے جس سے انتخابی اکائیوں اور برادری کلچر کو فروغ ملا ، اسی طرح 1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں مخالفین نے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے کردار کشی کی گئی اور غیر مہذب پروپیگنڈا کیا گیا ، ایک سیاسی اتحاد آئی جے آئی عمل میں لایا گیا اور قومی دولت کاا ستعمال کیا گیا ، نوے کی حکومت کوترانوے میں فارغ کر دیا گیا ، 1993 ء اور 1997 ء کے انتخابات پیپلز پارٹی پرکرپشن کے الزامات کی گونج میں منعقد ہوئے۔
انتخابات 2002 ء میں ملک کے منجھے ہوئے سینئر سیاست دانوں کو پارلیمنٹ اور سیاسی عمل سے باہر رکھنے کیلئے بی اے کی شرط لگا کر مسلم لیگ (ن) کے متعدد الیکٹیبلزاور رہنمائوں کی ایک الگ پارٹی مسلم لیگ (ق) بنا دی گئی اور اسے سارے ملک سے انتخابات میں اکثریت بھی دلوا دی گئی ، 2008ء کے انتخابات این آر او کا شاخسانہ تھے ، جس پارٹی کو 2002 ء میں منظم کیا اسی کو روند ڈالا،2013 ء میں وہ دیکھنے میں آیا جو کبھی نہیں ہوا تھا انتخابی امیدواروں کی قابلیت کو دعائے قنوت سننے کے علاوہ مذہبی سوالات سے جانچا گیا ، 2018 ء کے انتخابات ملک میں الزام تراشی کا بھونچال برپا کر گئے ، ادب کا جنازہ الزام کے کفن میں لپیٹ کر بے ادبی کی قبر میں ایسے دفنایا گیا کہ ادب کا نام ونشان ہی مٹ گیا ، اس پہ ستم یہ کہ انتخابی رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم ( آر ٹی ایس) کی ناکامی کی جو دلیل دی گئی اس نے صاف اور شفاف انتخابات کے دعوے کو متنازع کر دیا ، اسکے باوجود تشکیل پانے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو تقویت دی گئی کہ ملک میں مخالفوں پر مقدمات بنائے گئے جیل بھجوانے پر فخر محسوس کیا۔ سیاسی رہنمائوں کو جبری نیب زدہ کیا گیا ، اسکے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں جس کی وجہ سے لاتعداد صحافی اور اینکر بے روزگار ہوئے، کئی ٹی وی چینلز بند ہو گئے سینکڑوں اخبارات بند ہوئے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دور میں جو کیااب اگر وہی کچھ اسکے ساتھ ہو رہا ہے تو یہ مکافاتِ عمل ہے ، جیسی کرنی ویسی بھرنی اب لیول پلیئنگ فیلڈ کا تقاضا دراصل دوبارہ امپائر کو ساتھ ملانے کی التجاء کی جارہی ہے ، سیاسی میدان میں پی ٹی آئی مقابلے کی سکت نہیں رکھتی لہٰذا یا تو عدلیہ یا امپائر سے ہمدردیاں حاصل کرنے کی تگ ودو میں رہتی ہے۔
ادب کا جنازہ الزام کے کفن میں
Dec 31, 2023