زمینی حقائق اور تاریخی پس منظر سے نا واقف انجان پاکستانی سوشل میڈیا یوزر ، بلوچستان کے حوالے سے جنم لیتی ڈرامائی اور فیک جذباتی کہانیوں کا انجانے میں آلہ کار بنتے چلے جا رھے ہیں ، جس میں پاکستانی سیکورٹی فورسسز کو کوئی ظالم دیو اور بلوچی عوام کو مظلوم بنا کر دکھایا جا رہا ھے۔ اسی آڑ میں بلوچستان کو سانحہ مشرقی پاکستان سے تشبہہ دیکر عوام کو الگ سے گمراہ کرتے ھوئے دشمن ممالک کی مذموم خواہشات کے ایجنڈے کی تکمیل کی جا رہی ھے۔ اس ساری کہانی کو سمجھنے کے لیے اس کی تاریخ اور پس منظر کو سمجھنا بہت ضروری ھے۔
قیام پاکستان سے قبل بلوچستان ؛ فاران ، مکران ، قلات اور لیسبیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا۔ جن میں قلات سب سے بڑی ریاست تھی یہ ریاستیں برطانوی عمل داری کا حصہ تھیں۔ 1947 ء میں پاکستان بنتے ہی خان آف قلات میر احمد یار خان نے دیگر ریاستوں کو ساتھ ملا کر پاکستان کے علاوہ اپنی الگ آزاد حیثیت بنانا چاہی تو پاکستان کے پہلے برطانوی آرمی چیف سر فرینک والٹر میسروری نے قائداعظم کی قیادت میں تب ہی اس شورش کو کچل دیا تھا۔ 1948ء میں ان ریاستوں کو پاکستان میں شامل ہونا پڑا ، پاکستان میں شمولیت کے فیصلے کے خلاف خان آف قلات کے بھائی میر عبدالکریم نے مسلح بغاوت کی اور شکست کھانے کے بعد افغانستان فرار ہو گیا۔
1956ء کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ون یونٹ میں شامل کر دیا گیا تو خان آف قلات کی قیادت میں بلوچوں نے پھر مزاحمتی تحریک شروع کر دی ، جسے جنرل ایوب خان نے ختم کیا۔ 1970ء میں جنرل یحیٰ خان نے ون یونٹ کو ٹوڑ کر بلوچستان کو الگ صوبہ بناتے ھوئے 1972ء میں اس کے صوبائی انتخابات کرا دئیے اور بلوچستان کی عوامی نیشنل پارٹی نے وہاں اپنی صوبائی حکومت تو بنا لی لیکن اپنی پہلی صوبائی حکومت بنتے ھی انہوں نے مرکز سے خودمختاری کا مطالبہ بھی شروع کر دیا۔ اس فسادی مطالبے کے دو سال بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان اسمبلی توڑ کر وہاں گورنر راج نافذ کر دیا جس پر بلوچ سرداروں نے پاکستانی افواج کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں ، 60 ہزار بلوچی چھ سال تک پہاڑوں پر چھپ کر پاکستانی افواج پر گوریلہ حملے کرتے رھے۔ جنرل ضیاالحق نے ان سے صلح کرتے ہوئے گیارہ ہزار حملہ آور بلوچی رہا بھی کر دئیے 80 ء کی دہائی میں افغانستان پر روسی قبضہ ھو گیا ، تو بلوچ سرداروں کے لیے پاکستانی افواج اور سرکاری تنصیبات پر حملوں کے بعد افغانستان فرار ھونا بند ھو گیا۔
بلوچستان کی اس وقت آبادی ایک کروڑ 41 لاکھ کے قریب ھے۔ کل رقبہ 3 لاکھ 47 ہزار 190 مربع کلومیٹر ھے۔ اس کی 760 کلومیٹر ساحلی پٹی ھے جو بحرہ عرب سے بھی ملتی ھے۔ بلوچستان میں پاکستان کی 832 کلو میٹر سرحد ایران سے اور 1120 کلو میٹر طویل سرحد افغانستان سے ملتی ھے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ھے جو سطح سمندر سے 73 سو فٹ بلندی پر واقع ھے ، یہ صوبہ فضائی لحاظ سے یورپ اور ایشیاء کا درمیانی زون ھے۔
1958ء میں پاکستان نے عمان سے گوادر کو ساڑھے چار کروڑ روپے میں خرید کر بلوچستان میں شامل کر لیا تھا ، اور اب گوادر میں 51 ارب روپے کی لاگت سے ایسا انٹرنیشنل ائر پورٹ 4 ہزار تین سو ایکڑ رقبے پر اگلے چھ ماہ میں مکمل ھونے جارہا ھے جو پاکستان کے لیے پچاس ملین ڈالر سالانہ آمدن کا ذریعہ بن سکتا ھے ، کیونکہ اس سے قبل امریکہ ، یورپ آسٹریلیا اور دیگر ممالک کی انٹرنیشنل پروازیں ایندھن اور دیگر ضروریات کے لیے دوحہ ، دوبئی اور استنبول ائر پورٹ پر لینڈ کرتی ھیں جن میں سالانہ کروڑوں مسافر ہوتے ہیں۔۔۔ گوادر ائر پورٹ دوحہ اور دوبئی سے 40 منٹ کے فضائی سفر پر ہے اور استنبول سے ایک گھنٹے کی فضائی مسافت پر ہے۔ گوادر کے مستقبل کے فوجی ہوائی اڈے سے اسرائیل ڈائریکٹ فضائی نشانے کی زد میں بھی آ جاتا ھے۔
متعدد ممالک کے معاشی استحکام کے لیے گوادر کی سمندری بندرگاہ بھی تجارتی دروازے کی حیثیت رکھتی ھے ، اس سے قبل یہ تجارتی حیثیت ایران اور دوبئی پورٹ کے پاس تھی۔ جنوبی ایشیاء وسطی ایشیاء اور مغربی ایشیائی ممالک افغانستان ، چین ، ترکمانستان ، روس ، قازقستان ، عمان ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ایران اور قطر کے مابین گوادر بندر گاہ سے نئی معاشی ترقی کا آغاز ہو جائے گا ؛ کیونکہ چین اور روس سمیت کئی ممالک کے پاس گرم پانیوں کی اپنی کوئی بندرگاہ ہی نہیں ہے ، گوادر بندر گاہ آپریشنل ہونے سے امریکہ کی آبنائے ملائکہ پر اجارہ داری بھی ختم ہو جاتی ہے کہ امریکہ اس کے بعد آبنائے ملائکہ کو بند بھی کر دے تو بھی چین اور پاکستان سمیت کئی ممالک کے پاس بحرہ عرب کا تجارتی راستہ گوادر بندگاہ کے ذریعہ کھلا رہے گا۔ اسی لیے بھارت ، اسرائیل اور امریکہ گوادر بندر گاہ اور ائرپورٹ کے مخالف ہیں۔
بلوچستان زیر زمین ذخائر سے بھی مالا مال ہے جن میں قدرتی گیس پٹرول ، کوئلہ ، سونا ، تانبہ اور ارینکس پتھر کے لاکھوں ٹن ذخائر موجود ہیں۔ بلوچستان میں پہاڑی سلسلہ چاغی کے مقام پر چھ سو کلو میٹر لمبی 21 ہزار ٹن سونے کی ریکوڈک کان موجود ھے۔ وہیں 12 ہزار ٹن تانبے کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ ریکوڈک دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان ہے ، جس کی 25 فیصد رائلٹی بلوچستان کو ملنی ہے۔
بلوچستان میں مسئلہ بلوچی عوام کا نہیں ، بلوچی سرداروں کا ہے جو اپنی بادشاہت اور سرداری قائم رکھ کے ریاست کے اندر اپنی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ وہ بلوچستان کی ترقی نہیں چاہتے کہ اس سے بلوچی عوام ان کے سرداری سسٹم سے باہر نکل جائیں گے۔ اسی لیے وہ بلوچستان میں سرکاری تنصیبات اور فوجی چھاونیوں پر دشمن ملکوں کی حمایت سے حملے کرتے رہتے ہیں۔دفاعی حکمت عملی کے تحت پاکستانی فوجی چھاؤنیاں تو کراچی ، لاہور ، اسلام آباد سمیت ہر صوبے میں موجود ہیں جن پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ، لیکن یہ اعتراض صرف بلوچستان میں بلوچی سرداروں کو ہے ، جن کی سرداری ان فوجی تنصیبات سے خطرے میں پڑ جاتی ہے ، یہ اپنی چودھراہٹ کے لیے غریب عوام کو تعلیم سے دور رکھ کے صرف اپنا غلام بناتے ہوئے ان کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے بلوچی قوم کو ایسی انسانی نسل میں تبدیل کر دیا ہوا ہے جو صرف وہی دیکھتے اور سنتے ہیں جو ان کے سردار کہتے ہیں۔ ان سرداروں نے اپنی اپنی فورس بنا رکھی ہے۔ ایک ایک سردار کے ساتھ ایک ہزار سے زائد ذہنی غلام مسلح گارڈ چلتے ہیں۔ یہ خود یورپین ممالک سے تعلیمی ڈگریاں لیتے اور شاہانہ زندگیاں گزارتے ہوئے غریب عوام کے تمام تر سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ یہ درحقیقت بلوچستان کی آزادی نہیں بلکہ اپنی حاکمیت کی آزادی چاہتے ھیں۔ جس کے لیے یہ کئی دہائیوں سے اپنے روبوٹ جیسے عوام کے ذریعے پاکستانی وفاقی حکومتوں کو بلیک میل کرتے چلے آ رہے ہیں ، اب جب ناخواندگی کے باعث وہاں کے عوام روزگار سے بھی محروم ہو چکے ہیں تو یہ انہیں گوادر کی راہ دکھا رہے ہیں کہ بلوچی عوام گوادر سے اپنا حصہ اور روزگار مانگتے ہیں۔ گوادر کو پاکستان نے عمان سے خریدا تھا اور اب وہ دوبئی ، ابوظہبی کے ہم پلہ دنیا کا ایک نیا انٹرنیشنل شہر بننے جا رہا ہے۔ گوادر بندرگاہ کے لیے سی پیک کے تحت چین اور پاکستان میں سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھایا جا رہا ہے جس پر بلوچی سرداروں کی رال ٹپک رہی ہے کہ کیسے اس دولت پر قبضہ کیا جائے۔ دوسری طرف گوادر سمیت بلوچستان ، پاکستان دشمن ممالک کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے کہ اس معاشی ترقی سے پاکستان نہ صرف ڈالر کی اجارہ داری کے تسلط سے نکل جائے گا اور ان ممالک کی اپنی معیشتیں کمزور ہوتی چلی جائیں گی ، کیونکہ پاکستانی صوبہ بلوچستان ایسے جغرافیائی محل وقوع کا حامل ہے جس کے آپریشنل ہونے سے اب ایشاء کا ورلڈ آرڈر ہی تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔